شال ( اسٹاف رپورٹر سے )
بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں کہا کہ بلوچستان ایک طرف پاکستانی مظالم سہہ رہا ہے تو دوسری جانب ماحولیاتی تباہی کی لپیٹ میں ہے۔
انھوں نے کہاکہ آج کی دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات اہم ترین عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ،خشک سالی، سیلاب اور دوسرے اثرات پر ماحولیاتی سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں ، اور اس کے اثرات سے بچنے کے لیے تدابیر تلاش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ فطری عوامل کے علاوہ کوئلہ، تیل اور گیس کے استعمال اور ضرورت نے ماحول کو خراب کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے عالمی درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور پچھلے دس سالوں میں یہ نہایت ہی زیادہ ہوئی ہے اور اس سال کئی ملکوں میں ریکارڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
چیئرمین نے کہاکہ بلوچستان میں شدید گرمی اور حالیہ سیلاب بھی انہی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے ۔ ایک مقبوضہ ملک ہونے کی وجہ سے قابض نے بلوچستان کو کبھی بھی ان اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات نہیں کئے ہیں ، بلکہ اس میں شدت لانے کے لیے بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ بنا دیا گیاہے۔
انھوں نے کہاکہ پہلا تجربہ چوبیس سال پہلے چاغی میں ایٹمی دھماکوں کی شکل میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی بلوچستان کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ حبکو اور اوچ پاور پلانٹ اس کی مثالیں ہیں۔ یہ دونوں منصوبے بلوچستان میں ہیں لیکن ان کی پیداوار اور فائدے پاکستان اٹھا رہا ہے۔ یہ منصوبے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کی سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہیں۔
ڈاکٹر بلوچ نے کہا گرین ہاؤس گیسوں کا ماحول اور صحت پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ گرمی کو بڑھا کر موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، اور یہ سموگ اور فضائی آلودگی سے سانس کی بیماری کا بھی سبب بنتے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے دیگر اثرات انتہائی گرم موسم، اور جنگل کی آگ میں اضافہ ہیں۔
بی این ایم کے چیئرمین نے کہا قابض کے ظلم و ستم ، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اورغربت و پسماندگی سے بلوچ قوم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ گوکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بارشوں نے تباہی مچائی ہے اور وہاں کی حکومتیں شاید اپنے عوام کے لیے کچھ کر سکیں لیکن بلوچستان کی صورتحال مختلف ہے۔
چیئرمیں نسیم نے کہاکہ یہاں حکومت کا عوام کے تئیں رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان طوفانی برسات میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین 45 دنوں سے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دھرنا دیے ہوئے ہیں مگر سرکار ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔
انھوں نے کہاکہ یہی رویہ سیلاب کے متاثرین کے ساتھ بھی ہے۔ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے عوام کی مدد کے لیے اپنے قائم کردہ این جی اوز اور دوسرے اداروں کے ساتھ کام کریں۔