"چین تائیوان تنازع" کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔بی ایس ایف

شال :بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ جامعہ بلوچستان یونٹ آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے جامعہ بلوچستان میں 23 ستمبر بعنوان " چین تائیوان تنازع" پر میں ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا۔ جس میں مختلف ساتھیوں اور مہمانوں نے حصہ لیکر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس کے علاوہ، سرکل کے آخر میں سوال و جواب کا بھی سیشن رکھا گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ جامعہ بلوچستان یونٹ آرگنائزنگ باڈی کے آرگنائزر حکمت قمبر نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اگر چین تائیوان تنازع کو گہرائی اور باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازع چین تائیوان کے مابین یا حد تک نہیں بلکہ دو بڑی سامراجی قوتوں کے درمیان ہے۔ دو ایسی سامراجیت کے درمیان جو اپنی اپنی ورلڈ آرڈرز کے قیام پر ایک دوسرے سے بے رحمانہ مقابلہ اور کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ انھوں نے کہاکہ یہ تنازع دو نظریات اور حکومتی نظاموں کے درمیان ہے، یہ تنازع دو ایسی قوتوں کے درمیان ہے جو بالعموم ایشیا اور بالخصوص Indo-pacific ocean پر اپنی sphere of influence قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ تجارت اور آمدروفت کے تمام بین الاقوامی سمندری راستوں، straits اور chok points کو اپنے قابو اور اختیار میں رکھا جائے اور دنیا پر حکمرانی کیا جائے اور یہ دو سامراجی قوتیں امریکہ اور نوزائیدہ چین ہیں جو اپنی سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کیلئے کسی بھی حد کو پار کرتے ہیں۔ انھوں نے تائیوان کے جغرافیائی پوزیشن پر بات کریں تو تائیوان ایک جزیرہ جو کہ مشرقی اور جنوبی چینی سمندر کے درمیان ہے۔ اس کا کل رقبہ 36000 کلومیٹر ہے اور mainland چین سے 161 کلومیر فاصلے پر دور ہے اور چین اور تائیوان کے درمیان ایک سمندری آبی رہ ہے جو کہ تجارتی راہ کیلئے اس کی انتہائی اہم کردار ہے۔ یونٹ آرگمائزر نے کہا چین و تائیوان کے درمیان پوزیشن یا چین کی جارحانہ پوزیشن اور تائیوان کی دفاعی پوزیشن کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں وگرنہ ان کی تنازع اور دعوؤں کو سمجھنا محال ہوگا۔ تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گیارہویں صدی میں چین میں Zhob Dynasty تھی جس کے بادشاہ نے کچھ لوگوں کو ایک مہم جوئی میں بھیجا اور ان لوگوں نے کئی مہینوں کی expedition کے بعد جزیرہ نما تائیوان کو دریافت کیا اور پھر رفتہ رفتہ وہاں چین کے لوگوں کو settle کیا۔ اس کے بعد ستارویں صدی کے تیسرے عشرے یعنی 1624 کو نیدرلینڈ اپنی ایک لشکر بھیجتا ہے اور تائیوان پر یلغار کرکے قبضہ کرتے ہیں۔ یہ سامراجی قبضہ 1683 تک چلتی ہے۔ 1683 میں چین اور نیدرلینڈز کے لشکروں کے درمیان ایک جنگ ہوتی ہے اور نیدرلینڈ کی لشکر شکست سے دوچار ہوکر کچھ مارے جاتے ہیں اور کچھ علاقہ چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ تب تائیوان آزاد ہوجاتا ہے Qing Dynasty کے قابو میں آجاتا ہے اور چین کی ایک بڑی آبادی Hakka Chinese کے نام پر تائیوان میں ہجرت کرتے ہیں۔ تاہم، یہ کنٹرول اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب 1896 کو چاپان کی فوج تائیوان پر جارحانہ حملہ کرتا ہے اور اس کو قبضہ کرتا ہے اور تائیوان کے وسائل کا لوٹ مار کرتا ہے۔ یہ قبضہ اور لوٹ مار اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب جنگ عظیم دوئم واقع ہوتی ہے اور امریکہ و برطانیہ کی مدد و کمک سے جاپان کمزور ہوجاتا ہے اور 1945 کو چاپان تائیوان کو چھوڑ کر نکل جاتا ہے اور تائیوان آزاد ہوجاتا ہے اور Republic of China کے نام سے ایک ڈی فیکٹو ریاست کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور یہاں سے چین اور تائیوان کا تنازع باقاعدہ جڑ پکڑتا ہے۔ جب تائیوان جاپان کے قبضہ سے آزاد ہوجاتا ہے تو Chiang-Kai Shek نامی ایک شخص، جو ایک نینشلسٹ پارٹی کا صدر ہوتا ہے، چین سے اپنے ساتھ ایک بڑی آبادی، فوج، ہتھیار، خوراک، مشینری غرض ہر طرح کے وسائل و سامانِ ضروریات لاکر تائیوان میں settle ہوجاتے ہیں اور تائیوان کو ریبلک آف چائنا کا نام دیتے ہیں اور ایک authoritative نظام حکومت تشکیل دے کر پھر مارشل لاء نافذ کرتا ہے اور اس ریاست کا صدر بن جاتا ہے تاہم، دوسری طرف، mainland چین میں ماؤزے تنگ بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑرہی ہوتی ہے جو بالآخر 1949 میں اپنی جنگ آزادی میں کامیاب ہوجاتا ہے اور چین People's Republic of China کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ریاست کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ مزید برآں، چین میں ایک کمیونسٹ حکومت کی تشکیل ہوتی ہے جبکہ تائیوان میں ایک authoritative حکومت کی وجہ سے ان کے درمیان اختلاف، تفریق اور علیحدگی زور پکڑتی ہے۔ مزید براں، جب تائیواں بطور 1954ROC کو PRC کے دو جزیروں Matsu اور Kiemen پر حملہ کرتا ہے تو ان کے درمیان تنازعات مزید شدت اختیار کرتے ہیں اور 1958 کو ماؤزے تنگ ROC کی فوج پر حملہ کرتا ہے اور اپنے مقبوضہ جزیروں کو ریکوِر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح، ہر گرزتے برس کیساتھ ان کے درمیان لسانی اور ثقافتی تفرقات شدید تر ہوتے گئے۔تاہم، ان تنازعات کے باوجود تائیوان معاشی اور صنعتی لحاظ سے ترقی اور خوشحالی کے آسمان چُھو رہا تھا۔ جب 1975 کو ROC کا صدر Chinag kai shek مرجاتا ہے تو پھر تائیوان میں ڈیموکریٹک سیاسی پارٹیاں منظر عام پر آجاتے ہیں اور تائیوان کو جمہوریت کی راہ پر ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب 1992 کو PRC کے صوبہ Hong Kong میں ایک بڑا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں ROC اور PRC زبانی کلامی One China معاہدے یا حکمت عملی پر اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم، اس زبانی معاہدے کی تشریح چین کیمونسٹ پارٹی کچھ اس طرح کرتا ہے کہ 1۔ آبنائے(strait) کے دونوں sides کا تعلق ایک چین سے ہوگا۔ 2۔ چین پر بیجنگ کی حکومت ہوگی۔ 3۔ دونوں sides چین کی اتحاد و وحدت کیلئے مل کر کام کریں گے۔ لیکن ROC اس زبانی معاہدے کی دوسرے نقطہ سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تائیوان بنیادی اور حقیقی چین ہے۔ اس لیئے، دونوں طرف تائیوان حکومت کرے گی۔ اس لیئے، اس دوسرے نقطے پر اختلاف رہی اور پھر سے ان کے درمیان تنازعات شدت اختیار کرگئی۔ جب 2000 کو تائیوان میں الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو اس میں ایک جمہوری پارٹی سے منسلک Chen Sui Ban نامی ایک شخص الیکشن میں کامیاب ہوکر تائیوان کا صدر بن جاتا ہے اور تائیوان کی قومی آزادی اور خودمختاری کا موقف اپناتا ہے جس کی وجہ سے Mainland چین کو خدشہ ہوتا ہے اور ردعمل کے طور پر Anti-secession law پاس کرتا ہے اور تائیوان کی قومی خودمختاری اور آزادی والی موقف اور کاز کو چیلنج کرتا ہے۔ تاہم، چین کے اس قانون کے ردعمل میں تائیوان کے لوگوں میں قومی شناخت کا احساس بڑھتا ہے اور وہ باقاعدہ چین کے خلاف sun flower تحریک چلاتے ہیں جس میں یہ نعرے مشہور ہوجاتے ہیں کہ ہم تائیوانی ہیں، چینی نہیں۔ تائیوان کی اس علیحدگی اور بغاوت کو چین نے مخالفت کی اور تائیوان کو Renegade Province کہنے لگا اور چین کے 2013 الیکشن میں جب Xi Jinping صدر بن گیا۔ اس نے اپنی چینی حکمت عملیوں میں تائیوان کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت عملی اولین ترجیحات پر رکھی اور چین کے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ 2049 تک، جس میں چینی آزادی کی پہلی صدی پوری ہوگی، تائیوان کو اپنے ساتھ Reunify کرے گا۔ چین اور تائیوان کے درمیان تنازعات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب امریکہ کے ترجمان Nenci Pelosi نے تائیوان میں سرکاری وزٹ کیا اور تائیوان کی جمہوریت کا دفاع کرنے کا یقین دہانی کیا۔ اس وزٹ کے مقاصد مخفی رکھے گئے جس کی وجہ سے چین کے خدشات میں اضافہ ہوگیا۔ اس لیئے، چین نے ردعمل کے طور پر تائیوان پر کچھ میزائل داغ دیئے اور ان کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔ اس کے علاوہ، چینی صدر نے اپنے فوج People libration army کے چیف کو احکام جاری کیا ہے کہ وہ تائیوان کے قرب و جوار میں اپنی عسکری کاروائیاں بڑھائیں اور تائیوان کی جانب بڑھیں۔ ساتھیوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا چین امریکہ اور تائیوان کے باہمی تعلقات سے خدشات کا اظہار کررہا ہے کہ امریکہ تائیوان کو اپنا ایک vassal یا buffer ریاست بناکر چین کو کاؤنٹر کرسکتا ہے اور اس کی ریجنل اور سرحدی سیکیورٹی کیلئے خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیئے، چین چاہتی ہے کہ وہ امریکہ کو اپنے ریجن سے دور رکھیں اور تمام ممکنہ خطرات سے خود کو محفوظ رکھیں۔ بی ایس او کے ساتھی شاہ فہد بلوچ نے بھی چین تائیوان کے تاریخی پس منظر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئِے کہا کہ اگر ہم nationalist perspective سے دیکھیں تو تائیوان حق خودارادیت کے تمام معیارات رکھتا ہے۔ تاہم، امریکہ اور چین نے اس کو اپنی سامراجی عزائم کیلئے قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ اس لیئے، اس نے کہا کہ دنیا کے تمام مظلوم اور محکوم اقوام کو چائیے کہ وہ ایسے سامراجی قوتوں اور ان کے سامراجی عزائم کے خلاف صف آرا ہوکر برسرپیکار رہیں وگرنہ یہ سامراجی قوتیں تمام مظلوم اقوام کیلئے محض تباہیاں پیدا کریں گے۔ سرکل کے آخر میں بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ جامعہ بلوچستان یونٹ کے آرگنائزر نے تمام ساتھیوں اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ان کو اپنی سیاسی و فکری ڈیولپمنٹ پر دھیان اور محنت کرنے پر تاکید کیا اور اس عزم کا اظہار کیا ان کے ایسے پرمغز اسٹڈی سرکلز آگے بھی بدستور جاری رہیں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post