نعشیں اٹھا اٹھاکر تھک چکے ہیں، شہید شہزاد بلوچ کے اہلخانہ کی پریس کانفرنس

کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹرز سے، نمائندہ خصوصی ویب ڈیسک ) بلوچستان کے علاقے زیارت میں فوجی آپریشن دوران جعلی مقابلے میں شہید کئے جانے والے9لاپتہ افراد میں شہزاد بلوچ بھی شامل تھے۔ بلوچستان کے دارلحکومت شال میں پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہید شہزاد بلوچ کے اہلخانہ نے کہا کہ پاکستانی ریاست ایک مست گھوڑے کی طرح ہے اس کو لگام لگانے والا کوئی نہیں ہے۔ لاپتہ شہزاد دہوار کو زیارت آپریشن میں بے گناہ مارا گیاہے۔ شہزاد بلوچ قلات کے رہائشی تھے جنہیں 4 جون کو کوئٹہ سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔ شہزاد دہوار ریٹائرڈ ڈی ایس پی کیپٹن خدا بخش دہوار کے فرزند، کونسلر وحید احمد دہوار، انجینئر عبدالحمید دہوار، بی این پی کے سینئر رہنماء کامریڈ علی اکبر دہوار کے چھوٹے بھائی تھے۔ شہزاد بلوچ کے اہلخانہ نے پرسی کانفرسن کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد پاکستانی ریاست کی ظالمانہ اور سفاکانہ غنڈی گردی اور بلوچ نسل کشی کو میڈیا کی توسط سے عیاں کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پندرہ سالوں سے یہ ظلم و زیادتی ماورائے عدالت گرفتاریاں، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ جعلی مقابلے میں بلوچ نوجوانوں کو قتل کرنے اور ان کی مسخ شدی لاشوں پہاڑوں، بیابانوں اور جنگلوں میں پھینک دینا معمول بن چکا ہے۔ انھوں نے کہاکہ پاکستانی ریاست کی اس وحشیانہ طرز عمل سے اور بلوچ قوم کے ساحل و وسائل کے بے دریغ لوٹ کھسوٹ نے بلوچ نوجوانوں، تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈرز،ڈاکٹرز،انجینئرز، ادیب اور شاعروں سب کو دیوار سے لگا کر نفرت کی آگ بھڑکائی ہے۔اور یہ سلسلہ ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بھائی شہزاد بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو 4جون 2022کو کوئٹہ میں موسیٰ کالونی کے ایریا سے فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیاتھا۔ اس دوران ہم نے شہزاد بلوچ اور ان کے دوستوں کی بازیابی کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، سریاب تھانہ، کیچی بیگ تھانہ،مشرقی بائی پاس تھانہ میں ان کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی پر سیکورٹی اداروں کیخلاف رپورٹ اور ایف آئی آر درج کرنے کو کہا لیکن تھانے کے انچارج نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا۔ پھر اس سلسلے میں ہم نے پریس کانفرنس اور احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ انہوں نے کہاکہ اس دوران شہزاد بلوچ کا ایک ساتھی عید سے دودن پہلے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔ ہم اسی خوشی میں تھے کہ ہمارا بھائی بھی عید کی خوشیوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوگا۔لیکن بد قسمتی یہ ہوئی اس دوران زیارت کا واقعہ پیش آیا۔ اس دوران سیکورٹی اداروں کی جانب سے سرچ آپریشن چل رہا تھا۔ انہیں اغواکار تو نہیں ملے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہوں نے جعلی مقابلہ شو کرکے ہمارے نوجوان بھائی شہزاد بلوچ کو جو بلوچستان پولی ٹیکنیک کالج کاڈگری ہولڈرتھا اس کو شہید کردیا۔ یہ سیکورٹی اداروں، پاکستان کی عدلیہ، پاکستان کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے گناہ بلوچ اسٹوڈنٹس کو کب تک جعلی مقابلوں میں شہید کرکے پھینکا جائے گا۔ انھوں نے کہاکہ پاکستانی ریاست ایک مست گھوڑے کی طرح ہے اس کو لگام لگانے والا کوئی نہیں ہے۔ان سے پوچھنے والا اور سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج اگر شہزاد بلوچ کا نعش پھینک دیا گیا ہے تو کل کسی اور بھائی کی نعش اسی طرح پھینک دینگے۔اسی طرح بلوچ قوم کی نسل کشی چلتا رہے گا۔ شہید شہزاد بلوچ کے اہلخانہ کا کہناتھا کہ ہم نے تو شروع میں کہا تھا کہ بلکہ ہر بلوچ نوجوان کی فیملی یہ کہتی ہے کہ اگر کسی کا کوئی جرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔عدالت جو بھی سزا دیگی ہمیں قبول ہے ۔ لیکن ماورائے عدالت اٹھانا، غائب کرنا، اور بعد میں سیکورٹی اداروں کے ساتھ مقابلہ شو کرنا یہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے۔ آخر میں انہوں نے سیکورٹی اداروں، حکمرانوں اور حکام بالا سے اپیل کی کہ خدارا اس نسل کشی کو بند کیا جائے اور اس کو سنجیدہ لیا جائے۔ہم نعشیں اٹھا اٹھاکر تھک چکے ہیں۔ انہوں نے شہدائے زیارت کو انصاف دلانے کیلئے تمام لواحقین سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ شہدا ء کیلئے آواز بلند کریں۔ شہید شہزاد سمیت تمام شہدا کے قاتلوں کو سزادی جائے۔نسل کشی کے اس سلسلے کو ختم کرنے کیلئے تمام بلوچ عوام سمیت تمام محکوم اقوام سے گذارش کرتے ہیں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بھی موجود تھے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post