فلسفہِ زمین زادگی سے آشناہ شہدائے انجیری : تحریر : سہراب بلوچ

یار سمیر جان،بالدوست،تاھیر جان ،ھمل جان، عطا پُل، سگار بلوچ معاف کرنا دوستوں میں لاکھ کوشش کرنےکے باوجود بھی تمہارے عظیم قُربانیوں کے حوالے سے ایک الفاظ بھی نہیں لکھ پا رہا ہوں نہ جانے کیوں الفاظوں کی انبار سے لفظوں کی قحط پڑھ گئی ہے۔ یار تمہارے بے مُدتِ فراقیت نے مجھ کو ایسے کیفیت میں مبتلا کر دیا میں خود کو نامکمل محسوس کر رہا ہوں۔ خیالات منتشر ہیں، عقل دنگ رہ گئی، الفاظوں نے ساتھ دینا چھوڑ دیا، آپ دوستوں کی یادیں اور آپ کے ساتھ بیتے ہوئے وقت، آپ سے شُغل و مزاق کرنے کی وہ خوبصورت لمحات، آپ جیسے نظریاتی و مھروان دوستوں کی پیار و محبت و شفقت اور دوستی کی یادیں او بے وقت اور بے صبری میں ایک ساتھ جُدا ہونا نے مجھے اور بھی رُلا دیا ۔ احساسات و مارشِت کی ترجمانی قلم کبھی بھی نہیں کرسکتی اور ہاں احساسات کو قلم کی زبان پر لفظوں کی آنگن میں بند کرنے کی کوشش کرنا بھی کمال کی مہارت ہے مجھ جیسے ناچیز کے لیے آپ جیسے عظیم و نظریاتی و مخلص دوستوں کی اپنی جنت نما سرزمین کے لیے لازوال قُربانیاں، محنت، جزبہ و پہاڑ نما حوصلوں کے مالک اشخاص کے حوالے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کاپی کی صفحہ پر لکھنا بھی بڑی امتحان سے کم نہیں۔ یار سچ تو ہے کہ آپ جیسے زمین زادگوں کی عظیم قومی قربانیوں اور شجاعت کے حوالےمیں اگر قلم کو جنبش دینے کی جسارت کر دوں بھی تو میرے چند بکھرے ہوئے لفظیں بھی آپ کے سامنے شرمندہ ہو جاتی ہیں۔ دوستوں ہمارے گلہ و شکوہ آپ سے اس لیے ضرور بنتا ہے کہ اب تک میجر باسط و عاقل جان سمیت شہید دوستوں کی دیئے ہوئے زخم تازہ ہیں ،شہید شئے شاپکولی کی غمِ جدائی سے دوست نڈھال ہیں، شہید کمانڈر نور سلام نور، شہید دودا جان ،ماسٹر مکیش شہید گہُرام جان سمیت شہید دوستوں و شہیدائے ناگاؤ و شہدائے نوشکی کی بیک وقت شہادت کی خلا بھی ابھی تک پُر نہ ہوا ہے لیکن آپ کی ایک ساتھ بے صبری کی کیفیت میں غمِ جدائی نے ہمارے زخموں کو اور کریدا گیا ہے۔ یار تھوڑا ہم پر رحم کیا کرتے ایسے ناصبری نہ کیا کرتے تو بہت اچھا تھا بس کیا کریں میں جانتا ہوں آپ شہید بابا جان کی دیدار کے لیے ترس رئے تھے، رضا جان کی یادیں آپ کو ضرور ستا رئے تھے اور ساکا جان ،کامریڈ امتیاز جان اور ذدگ جان کی ملنے کے لیے ضرور بیتاب تھے یقینا آج آپ تمام دوست بابا جان  رضا جان اور دوسرے شہید دوستوں کے ساتھ ہم دیواں و ہم کلام ہو کر بہت خوش ہیں بالی جان ضرور اپنی جنگی کہانیاں سنا رئے ہیں شہید کامریڈ امتیاز، ملوک جان و مرید جان بہت غور سے سُن رئے ہیں۔ شہید رضا جہانگیر نے تمام دوستوں کو ایک ساتھ  بٹھا کر ،، قومی غلامی اور غلام قوم کے فرزندوں کی فرض،، کی ایجنڈا پر دوستوں کو سرکل دے رئے ہیں اور بابا جان تمام دوستوں کو اکیلا اکیلا ایک سائیڑ میں بُلا کر تمام نظریاتی دوستوں اور قومی جنگ کے حال و احوال پوچھ رئے ہونگے اور میں جانتا ہوں سمیر جان کبھی بھی اپنا عادت نہیں چھوڑتے ھاھاھاھاھا وہ ضرور شہید ساکا جان کو چھیڑنے کی کوشش کرتے اور حمل جان تمام دوستوں کو ہنسانے کے لیے شہید زدگ پر مزاق اڑا کر دیوان میں بیٹھے ہوئے تمام دوست ایک ساتھ ہنس کر خوب مزاق و شغل کر رئے ہونگے۔ نظریاتی دوستوں کی بیچِ رستے میں رخصت ہونا قیامت سے کم نہیں لیکن گلزمین کی عشق ، اغیاروں سے اپنی ماؤں اور بہنوں کی دوپٹہ محفوظ رکھنے کی احساس زمہداری اور اپنی قومی فرض اور قرض سے آشنائی ہی ایک انقلابی و قومی جہدکار کو ہر وہ عمل و اقدام اٹھانے کی جانب مائل کرتا ہے کہ جہان قومی غلامی سے سدباب ہونے کی امُید ہو۔ دوستوں آواران ، جاہءِآھو اور مشکے اب بھی آپ جیسے مھروان فرزندوں کی غمِ جدائی میں  چور چور ہیں ،کولواہ آپ کےجدائی میں خون کی آنسو رو رو کر اپنی آنسؤں کو پونچھ کر فخر محسوس کر رہی ہے کہ میں نے بھی ایسے بہادر زمین زادگ جننا ہے جنہوں نے اپنی مادر وتن پر قربان ہوکر تاریخ میں میری سر فخر سے بلند کی اور ہاں پروم تو ابھی تک احساس ندامت سے نالاں ہے کہ ہم میں وہ کونسی کمی و  کوتائی رہ گئی تھی کہ میں اپنی فُزندوں کو اپنی باہوں کی آغوش میں بھی حفاظت نہ کر سکا۔ عشق کے سامنے زندگی کی سودا کرنا بڑی بات نہیں جب عشق اپنی سرزمین سے ہو تو سرزمین کی عاشق کے لیے زندگی کی کوئی اہمیت نہیں یہ راز میں نے شہید سمیر جان سے سیکھا.تمام نظریاتی دوستوں کی درد و رنج ایک جیسے ہیں اور ہمارے لیے بلوچ شہداؤں سمیت تمام قومی جہدکاروں کی محنت و قُربانیوں سر آنکھ پر ہیں اور اُن کی بلوچ جنگِ آزادی کی رستے میں بہتے ہوئے پسینہ اور اپنی مٹی کے لیے بہائے ہوئے لہو کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اگر میرے سامنے کوئی ایک حقیقی قومی جہد کار ،کامل سرمچار، شجاعت اور بلند حوصلوں کے مالک، عمل کے پیکر  مزاحمتی دوست گزرا اُن میں سے ایک سمیر جان آپ تھے اور شہید بالی جان نے تو  اپنے عمل و کِردار سے دکھا دیا کہ سرزمین کی حقیقی فرزندیں موت کی فلسفہ سے ہمیشہ آگائی رکھتے ہیں کہ ہمیں کب اور کہاں اپنی قوم کو غلامی کی اندھیری زندگی سے نکالنے اور صبح نوید آزادی کی پُر فضا ماحول میسر کرنے کے لیے خود کو قُربان کرنا ہوگا۔ سیاسی سرکلوں سے لیکر جنگی مورچوں تک شہید حمل جان دن رات رات اپنی قومی زمہداریوں پر ایماندار و مخلص تھے اور آپ کے نزدیک قومی مقصد کے علاوہ نجی زندگی کی پُر آسائش ماحول و آسودگیاں کبھی بھی معنی نہیں رکھتے، تاھیر جان بہت کم باتیں کیا کرتے تھے آپ باتوں سے زیادہ عملی کام کے قائل تھا اور تاھیر جان کو زیادہ تر جنگی فنوں میں دسترس حاصل تھی ہر وقت آپ اسی سوچ میں مگن تھا کہ دشمن پر کب کیسے اور کہاں حملہ کیا کریں تاکہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ تر نقصان پہنچایا جا سکیں۔ عطا پُل اور سگار جان کے سامنے بھی دنیاؤی آسائشیں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکے ہیں آپ دونوں بھی اپنی قومی موقف اور نظریہ پر زندگی کی آخری دم تک ثابت قدم رہ کر موت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیدہ دلیری سے ہی دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئیں۔ موت ایک آفاقی سچائی ہے لیکن دنیا میں چند گنے چنے ایسے انسان بھی ہیں جو فلسفہِ زمین زادگی سے آشنا ہوکر موت کو شکست دیکر اپنی سرزمین و قومی تشخص اور قومی بقاہ کو بچانے کے لیے قُربان ہو کر تاریخ کی بے رحم پنوں میں ہمیشہ سرخرو ہونگے۔ کہتے ہیں شہادتیں ہی قومی تحریکوں کی آکسیجن ہوتے ہیں اور غلام قوموں کو اپنی منزل تک پہنچبے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن نظریاتی دوستوں کی جدائی انسان کے لیے بہت تکلیف دہ لمحات ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ  سرزمین کے شہیدوں کی فکر و فلسفہ تا ابد آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتے رئیں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post