بلوچ افراد کی بازیابی کی تحریک آئین اور قانون کے دائرے میں ہے، آمنہ بلوچ

کراچی (نامہ نگار ) کراچی سے لاپتہ افراد کی بازیابی کی جدوجہد ایک پرامن اور جمہوری تحریک ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر بلوچ لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف تحریک چلارہے ہیں۔ حکومت اور اس کے ادارے قانون کا احترام کرکے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کریں۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے ہفتہ کے روز کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے لگائے جانے والے احتجاجی کیمپ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ آمنہ بلوچ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جمہوری جدوجہد کا احترام کیا جائے۔ اور قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر سندھ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔ اور ہماری جمہوری اور قانونی تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال نہ کریں۔ کراچی میں جبری گمشدگی کی تحریک چلانے والی رہنما آمنہ بلوچ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ماورائے قانون کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جس سے سندھ میں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ اس وقت بے شمار افراد سی ٹی ڈی اور وفاقی اداروں کے قید میں ہیں۔ وہ بے گناہ ہیں۔ احتجاجی کیمپ میں بے شمار لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے شریک ہیں۔ ان لاپتہ افراد کو بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں سے حراست میں لیا گیا۔ جو تاحال لاپتہ ہیں۔ کراچی میں ماری پور کے علاقے دلفلاح آباد سے محمد عمران ولد محمد حنیف کو لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر کو سی ٹی ڈی اور فورسز نے گھر سے اٹھالیا۔ سعید احمد کا تعلق ضلع کیچ کے دشت کڈان سے ہے۔ لیاری کے علاقے میراں ناکہ سے شوکت بلوچ کو لاپتہ کردیا ہے۔ لواحقین نے متحدہ عرب امارت حکام کی جانب سے پاکستان کے حوالے کرنے والے دو بلوچ ایکٹویسٹ راشد حسین اور عبدالحفیظ زہری کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں لاپتہ بلوچ کارکنوں کی زندگی کو حراست میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جبکہ عبدالحفیظ زہری کو کراچی کے ایک جیل سے منظر عام میں لایا گیاہے۔ عبدالحفیظ زہری کے کزن عبدالحمید زہری کو 10 اپریل 2021 کو کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔ سندھ پولیس کی مدد سے انہیں گلستان جوہر کراچی میں واقعہ انکے گھر سے لاپتہ کردیا گیا۔ طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کو کیچ کے علاقے گورکوپ سے 4 اکتوبر 2016 کو حراست میں لے کر جبرا لاپتا کردیا۔ اس وقت ان کی بیوی زرینہ اور ان کی بہن سیما سراپا احتجاج ہیں۔ سیاسی و سماجی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے ”اورناچ“ سے دورانِ ڈیوٹی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی بیٹیاں سمی دین بلوچ اور مہلب بلوچ سراپا احتجاج ہیں۔سمی دین بلوچ، ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے شرکا میں شامل تھیں۔ آج کل وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی جنرل سیکرٹری بھی ہیں

Post a Comment

Previous Post Next Post