مقبوضہ بلوچستان
بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے پاکستان کے وفاقی وزیر انسانی حقوق ریاض پیرزادہ کا لاپتہ افراد کے متعلق بیان پر تشویش اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی ریاست نے لاپتہ افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ پاکستانی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے اور درندگی کو عیاں کرتا ہے۔ اس سے قبل مشرف دور حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ نے 4500 افراد کے ریاستی تحویل میں ہونے کا اعتراف کیا تھا لیکن آج ریاست کے ایک وزیر کا جبری گمشدگی کے شکار افراد کا اعتراف قتل ثابت کرتا ہے کہ جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی میں ریاست ملوث ہے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کرکے انہیں دہشت گرد ظاہر کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں قتل ہونے والے بیشتر افراد لاپتہ افراد تھے جنہیں دہشت گردی کا لیبل لگا کر پاکستان و اسکے دہشت گرد اداروں نے دنیا کی نظر میں دھول جھونک دیا ہے تاکہ وہ عالمی اداروں کو گمراہ کرکے بلوچستان کے جبری گمشدگی کے کیسز کو متنازعہ بناسکے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے اہلخانہ کی جدوجہد نے آج ریاست کو اعتراف قتل پر مجبور کردیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے عسکری و سول ادارے جبری گمشدگی کے شکار افراد کی ریاستی حراست میں موجودگی سے انکاری تھے۔ لیکن آج یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کے عسکری ادارے جبری گمشدگی و مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کے ذمہ دار ہیں۔
ایک طرف وفاقی وزیر کا اعتراف قتل اور دوسری طرف لاہور سے نامعلوم افراد کے لاشوں کی برآمدگی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی اداروں نے لاپتہ افراد کو قتل کرکے لاشیں پھینک دی ہیں اور ایدھی ٹرسٹ نے انہیں نامعلوم سمجھ کر بغیر کسی ڈی این اے کے دفنادیا ہے تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے۔ وفاقی وزیر کا اعترافی بیان اور لاہور سے سینکڑوں لاشوں کی برامدگی سے واضح ہے کہ پاکستان کے دہشت گرد خفیہ اداروں نے ایک مرتبہ پھر لاپتہ افراد کو قتل کرنے کی پالیسی میں تیزی لائی ہتے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ریاستی اداروں نے بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد کو قتل کرکے لاشیں پھینکنی شروع کی تھی۔ ان میں سیاسی کارکنان سمیت عام افراد شامل تھے جبکہ نواز دور حکومت میں خضدار سے اجتماعی قبریں بر آمد ہوئی تھیں جو تمام لاپتہ افراد کی تھی۔
مرکزی ترجمان نے کہا پاکستان کے تمام عسکری و سول ادارے بلوچستان کے معاملے پر ایک صفحے پر متحد ہیں۔ پاکستان کے سول و عسکری ادارے ہر دور میں بلوچستان سے جبری گمشدگی کے کیسز کو متنازعہ بنانے کے لئے بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا سوشہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ لیکن جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کا پر امن احتجاج ان کے جھوٹ کو آشکار کراتا ہے۔
ریاض پیرزادہ کے بیان سے قبل بھی پاکستان کے عسکری و سول اداروں نے جبری گمشدگی کے کیسز کو متنازعہ بنانے کے لئے اس قسم کے الزامات کا سہارا لے کر بلوچ نسل کشی کو تقویت دی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر عسکری اداروں کی خواہش پر اس طرح کا بیان دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرکے انہیں دہشت گرد ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مرکزی ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ وفاقی وزیر کا اعتراف قتل پاکستان کے گھناونے چہرے اور دہشت گردانہ پالیسیوں کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو چاہیے کہ وہ وفاقی وزیر انسانی حقوق کے بیان کا نوٹس لے کر بلوچستان کے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو انصاف فراہم کریں جبکہ پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا کر اسکے دہشت گرد عسکری اداروں کو جوابدہ ٹھہرائیں