روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جرمن چانسلر اور فرانسیسسی صدر سے ٹیلی فون پربات چیت کرتے ہوئے یوکرین کو مغربی ممالک کی طرف سے مزید ہتھیار فراہم کرنے سے خبردار کیا ہے۔ دوسری جانب روس نے ایک اہم یوکرینی قصبے پر قبضہ کر لیا ہے۔
روسی صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق صدر پوٹن نے جرمن چانسلر اولاف شُولس اور فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں سے یوکرین کی تازہ صورتحال کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ روسی صدر نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کیے گئے تو نہ صرف صورتحال غیرمستحکم ہو سکتی ہے بلکہ انسانی بحران جیسا المیہ بھی جنم لے سکتا ہے۔
دوسری جانب جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر نے 80 منٹ دورانیے کی اس بات چیت میں روس سے دوبارہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن ہیبسٹرائٹ نے کہا ہے کہ چانسلر اور فرانسیسی صدر نے ”فوری طور پر جنگ بندی اور روسی فوجیوں کی پسپائی‘‘ پر زور دیا ہے۔
برلن سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ ٹیلی فون کال جرمنی اور فرانس کی کوششوں سے ممکن ہوئی ہے۔
پیرس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق دونوں مغربی سیاست دانوں نے تقریباً 2500 یوکرینی جنگجوؤں کی رہائی پر بھی اصرار کیا، جنہوں نے بندرگاہی شہر ماریوپول کا دفاع کیا تھا۔ روسی فوج نے اس یوکرینی شہر کا مہینوں تک محاصرہ جاری رکھا اور ابھی ایک ہفتہ قبل ہی مکمل فتح کا اعلان کیا تھا۔
کریملن کے مطابق صدر پوٹن نے جمود کا شکار امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس فون کال میں دنیا میں فوڈ سیفٹی کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی گئی۔ مغرب روس سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی ختم کرے تاکہ یہ ملک دوبارہ گندم کی برآمد شروع کر سکے۔
دوسری جانب صدر پوٹن نے یوکرینی اناج کی برآمد پر رعایت دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے ملک کے خلاف مغربی پابندیوں میں نرمی کے اپنے مطالبے کی تجدید بھی کی ہے۔
دوسری جانب مشرقی یوکرین میں روسی فورسز کی پیش قدمی جاری ہے۔ روس کے مطابق اس نے مشرقی یوکرین کے ایک اہم قصبے پر قبضہ کر لیا ہے۔ لیمن نامی قصبے پر قبضے سے روسی فوجیوں کو ڈونباس خطے کے مشرق اور جنوب مغرب میں روڈ اور ریلوے نیٹ ورک کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ کییف نے بھی اس خطے میں روسی پیش قدمی کا اعتراف کیا ہے۔ برطانوی انٹیلجنس کے مطابق روس کے حالیہ حملے کسی نئے محاذ کی تیاری کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ برطانوی انٹیلجنس کے مطابق روس کا مقصد لوہانسک اور ڈونیسک خطے پر مکمل قبضہ کر کے وہاں روس میں شمولیت کے حوالے سے ریفرنڈم کروانا ہو سکتا ہے۔
Share this