بلوچ طالبعلموں کو اپنے ذمہ داریوں کا ادراک کرکے بلوچ سماج کی تشکیل میں کردار ادا کرنا
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے خضدار ایجوکیشنل اور لٹریری فیسٹیول کے کامیابی کے ساتھ منعقد کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طویل مدت سے چھائی ہوئی خاموشی و سیاسی جمود کو توڑ کر خضدار میں سیاسی، ادبی و تخلیقی ماحول کو زندہ کرنا باعث مسرت ہے۔ پچھلے ایک دہائی سے خضدار سمیت گردنواح کے علاقے سیاسی جمود کا شکار ہیں اور خوف کے ماحول نے پردے ڈال رکھے ہیں۔ سیاسی اور تربیتی ماحول کو پروان چڑھانے کیلئے پہلے بھی تنظیم کی جانب سے تونسہ شریف، حب چوکی اور لیاری میں اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد کرچکے ہیں۔
انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پینل ڈسکشنز، سٹیج ڈرامہ، مشاعرہ، آرٹ نمائش، سمیت میوزیکل نائٹ اس فیسٹیول کا حصہ تھے جس میں کثیر تعداد میں طلبا و طالبات نے شرکت کی۔
پروگرام کے پہلے سیگمنٹ میں “زبان اور اسکا قومی تشکیل میں کردار” کے موضوع پر پینل ڈسکشن ہوا جس میں مرکزی کمیٹی کے رکن اعجاز بلوچ موڈریٹر جبکہ پروفیسر علی گوہر، ڈاکٹر باری آجو اور شاکر شاد پینلسٹ تھے۔ مقررین نے بلوچی زبان اور ادب سمیت زبان کو درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے زبان کی سماجی تشکیل میں کردار پر روشنی ڈالی۔ دوسرے پینل ڈسکشن “یوتھ لیڈرشپ” میں زونل صدر حیربیار بلوچ موڈریٹر جبکہ سیکرٹری جنرل آصف بلوچ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل رفیق بلوچ اور مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سمیعہ بلوچ پینلسٹ تھے۔ جنہوں نے بلوچ طلباء سیاست، تاریخی پس منظر، موجودہ مسائل کے ساتھ ساتھ آنے والے وقتوں میں بلوچ طلبا کو منظم و محکم کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔
مشاعرہ دیوان زیر صدارت ڈاکٹر باری آجو کے شروع کیا گیا جس میں طلبا سمیت ڈاکٹر باری آجو، پروفیسر علی گوہر اور شاکر شاد نے حصہ لیکر اپنے شاعری سے پروگرام کو مزید جازبیت بخشا۔ بالاچ گورگیج کے اساطیری کردار پر طلبا نے ایک سٹیج ڈرامہ پیش کیا جس میں بالاچ گورگیج کے بہادری اور معیار جلی کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ پہلے سیگمنٹ کے آخری حصہ میں نرگس سلطانہ بلوچ نے خضدار اور موجودہ دور کے تعلیمی نظام پہ روشنی ڈالی جبکہ ایڈوکیٹ عمران بلوچ نے بلوچ سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جبکہ دوسرے سیگمنٹ میں محفل موسیقی کا انعقاد ہوا جس میں استاد جمعہ خان اور مبارک داد نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
مرکزی ترجمان نے تنظمی کارکنان کو خضدار میں اس کامیاب فیسٹیول پہ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان بھر میں اور خضدار میں بالخصوص پچھلے ایک دہائی سے اس طرح کے سیاسی او ادبی پروگرام نہیں ہوسکے ہیں جس کی وجہ سے یہاں طلبا سمیت معاشرے کے تمام تر طبقات جمود اور خوف کا شکار رہے ہیں۔ اس خوف کے دیوار کو توڑ کر طلبا کو پھر سے سیاسی اور ادبی ڈسکشنز کا حصہ بنانا تنظیمی کارکنان کے شپ و روز محنت کا نتیجہ ہے۔ تنظیمی کارکنان اس تسلسل کو اسی طرح قائم رکھ کر بلوچ طلبا کی تربیت کا عمل جاری رکھیں۔
بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا شروع دن سے یہی منشور رہا ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر پرامن سیاسی و ادبی ماحول کو پروان چڑھانا ہے۔ تنظیم آنے والے وقتوں میں اس طرح کے پروگرام کا انعقاد اسی طرح جاری رکھے گی