تربت ( نامہ نگار ) ضلع کیچ کی تحصیل تربت کے علاقے اللہ بخت کے مکینوں کا کہنا ہے کہ میر دوست ولد عبیداللہ کو 13 فروری 2025 کو سیکورٹی فورسز نے ان کے گھر سے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا۔
نو ماہ بعد، 10 نومبر 2025 کو ان کی تشدد زدہ، گولیوں سے چھلنی لاش تربت کے علاقے گھنہ سے برآمد ہوئی جو ایک ماورائے قانون اور غیر انسانی عمل ہے، جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
میر دوست کے اہلِ خانہ نے ان کی عدم بازیابی پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے، جنہیں میڈیا نے رپورٹ کیا۔ بعد ازاں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کیچ نے انہیں بازیابی کی یقین دہانی کرائی، مگر نتیجہ لاش کی صورت میں دیا گیا۔
کیچ کے سماجی انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کامریڈ وسیم سفر کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ واضح ثبوت ہے کہ ریاستی ادارے جبری لاپتہ افراد کے خلاف کوئی قانونی یا ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکتے، اسی لیے انہیں جعلی مقابلوں میں قتل کر کے سچ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ صرف میر دوست کا قتل نہیں، بلکہ انسانیت، انصاف، جمہوریت اور آئین کا قتل ہے۔
ہم اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیموں اور یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کا فوری نوٹس لیں۔
اسانی حقوق کے علمبردار ادارے اگر خاموش رہے تو خطے میں ایک شدید انسانی بحران جنم لے گا، جس کی تمام تر ذمہ داری اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری پر عائد ہوگی۔
ریاست پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق و جمہوریت پر دستخط کر رکھے ہیں، مگر بلوچستان میں لاقانونیت اور جبر کا راج اس چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔
