جرمنی ( نامہ نگار ) بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف، اور متاثرین کے حق میں، بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی جانب سے جرمنی کے شہر بون میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائے، بلوچ نسل کشی کو روکے، بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی شفاف تحقیقات کرائے، اور متاثرین کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
مقررین نے اس موقع پر عالمی برادری کی بے حسی اور طاقتور ممالک کے بلوچستان میں کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان بلوچ قوم کا وطن ہے، جو قدرتی وسائل سے مالامال اور عالمی تجارت کے اہم راستے پر واقع ہے۔ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود بلوچستان آج بھی نوآبادیاتی جبر کا شکار ہے، اور بلوچ عوام کو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق سے منظم طور پر محروم رکھا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عالمی طاقتیں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت پاکستان کی نوآبادیاتی حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہیں تاکہ بلوچستان کے وسائل سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
مقررین نے کہاکہ بلوچستان میں بلوچ شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے، جن میں سے متعدد کی مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں سے برآمد ہوتی ہیں۔ کئی دیہاتوں کو زمینی اور فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سنگین مظالم کے باوجود اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جو انسانی حقوق کی عالمی اقدار کے منافی ہے۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مزید کہا کہ پاکستانی جبر اور جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے خاندان مستقل خوف اور اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ سوال تک نہیں پوچھ سکتے، کیونکہ جیسے ہی وہ آواز بلند کرتے ہیں، انھیں ہراساں، دھمکایا اور خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ ظلم صرف افراد پر نہیں بلکہ پوری برادریوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور انھیں تباہ کر دیتا ہے۔
اس موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ (جرمنی) کے جنرل سیکریٹری جبار بلوچ سمیت حبیب بلوچ، لقمان بلوچ، آصف بلوچ، شارک، حماد بلوچ، ولید بلوچ، وجاہت بلوچ، شیران بلوچ، ہانیہ بلوچ، سارہ بلوچ، امئی بلوچ اور اکبر سبز بلوچ نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔