کسی مکمل انسان کو ہمارے ہاں پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ تحریر سمیر جیئند بلوچ



کبھی سوچتا ہوں ہم کتنے بدنصیب ہیں ،ہمارے درمیان ایسے ایسے عظیم  لوگ موجود ہوتے ہیں، مگر ہم جب تک وہ زندہ ہیں ، زندگی میں ان  کی اہمیت نہیں جانتے، ان کے ہر عظیم کا م نظر انداز کردیتے ہیں ، جب بچھڑ جاتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ انھیں وقت نہ دیکر ان کی علم دانش ،دن رات محنت، لگن ،خلوص ،جفا کشی ،کامریڈ شپ کی قدر نہ کرکے کتنی بڑی بھول کردی ہے ۔
وہ زندگی بھر تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہمارے لئے جیتے رہے ،خلوص کی انتہاء یہ کہ اگر انھیں برے سے برا کام بھی دیا گیا، تو وہ جہد کی خاطر نہیں ہچ کچائے، وہ خندہ پیشانی سے قبول کرکے اس کام کو قومی فریضہ سمجھ کر نبھائےاوراپنے آپ کو سرخرو کرتے رہے۔
ایسے عظیم کامریڈوں میں سے ایک شوکت بلیدی عرف چاکر ، ڈون ،ڈارلنگ کا نام آتا ہے ۔میں انھیں اپنا استاد ،شاگر ،کامریڈ ساتھی نہ جانے کس نام سے پکاردوں وہ ہر ایک کام  پر کھرے اترتے  ہیں ۔
ہر انسانی کی طرح آپ میں بھی کمی برائی ہوسکتی ہے، مگر مجموعی طورپر دیکھا جائے وہ ایک مکمل انسان،احساس سے بھرپور عظیم آزادی پسند جہد کار تھے ،  وہ اپنے کام کو سچے دل محنت لگن اور فرض سمجھ کر پورا کرنے کے قائل تھے ،وہ شاید لاکھوں میں ایک تھے ۔
مگر ہماری قومی المیہ ہے ایسے لوگوں کی ہم قدر نہیں کرتے جب تک وہ جسمانی زندہ ہ ہوتےہیں ہم  ان کے راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں ۔
شوکت کے ساتھ بھی مجھ سمیت ہمارے 99 فیصد ساتھیوں کا رویہ یہی رہا ہے۔
میرا ملاقات ان سے 2009 میں ہوا، ،اس وقت میں علمی مطالعہ حوالے زندگی سے مایوس تھا،پہلی ملاقات میں ہم ایسے  دوست بنے جیسے ہم صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں  اور میں انھیں ڈارلنگ نام سے پکارنا شروع کردیا یہی کوڈ آگے چل کر ہمارے ایک دوسرے کا پہنچان بنا۔

پہلی صبح اٹھتے ہی مجھے ایک کتاب تھمادی اور کہاکہ سر مہربانی کرکے میری خاطر صبح بستر سے اٹھتے ہی 15 منٹ تک کسی  کتاب کا مطالعہ کریں، یہ کام آپ کو ہمیشہ کرنا ہے  ،دوسری بات یہ کہ آپ صحافی ہیں ،پھر قلم اٹھائیں ہمیں قلم کی سخت ضرورت ہے ،اس کیلے انھوں نے مزاحیہ مجھے شیطان کی سوغند دی ،یہ اس لیئے کہ وہ کہتے تھے میں شیطان کو اپنا گرو استاد مانتا ہوں ۔
میں خود انتہاء پسندی سے دور تھا اور ہوں ، تو میں نے وعدہ کیا کہ ایسا ہی ہوگا ،پھر آگے چل کر ہر ایک نے اپنی اپنی ذمہداریوں میں لگ گئے ۔

2012 میں انھوں نے مشورہ مانگا کہ رسالہ نکالنا ہے آپ چونک صحافی ہیں تو آپ پریکٹیکلی وہ بنیادی چیزیں سمجھائیں کہ ہم یہ کام شروع کر سکیں ،میں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے طریقہ کار ان کے سامنے رکھ دیئے جس کے بعد وہ اس کا م کا بیڑا ایسے اٹھایا کہ اس کام کیلے اپنےصحت بھی داؤ پر رکھ دیا،انکے کام یہاں تک محدود نہیں تھے وہ ہر وہ کام میں کود پڑے جو ہمارے جیسے نالائق ، سست شخص کیلے ناممکن تھا ۔
جس کام کا بیڑا انھوں نے اٹھایا وہ ہمارے سب کے بھلائی کیلے ہی تھا۔ مگر بدقسمتی سے دوسروں کے مقابلے ہم اپنے ہی ساتھی  اس کے خلاف سرد جنگ میں مصروف رہے ۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو وہ کر رہاہے ہماری بھلائی کیلے ہے، وہ دشمن کے خلاف کام کرہاہے ،لیکن نہیں ہم نے قدم قدم پر اس کیلے جانے انجانے رکاوٹ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ۔کبھی کسی نے کھل کر انھیں انکی سچائی ایمانداری کام کی لگن کیلے کھلے دل سےداد نہیں دیا۔ ہر ایک نے اس کے علم کا فائدہ  اٹھایا،وہ بیان اور سوشل میڈیا ایپس پر پوسٹ لکھ کر دوسروں کے نام  جاری کرکے انھیں تاج پہناتے رہے تاکہ وہ آگے آئیں ان کا نام سامنے آئے وہی ہیرو بنیں ۔
انھوں نے کبھی اپنا نام سامنے لانے اور کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی ، حالاں کہ بلوچ تحریک میں ایسے ایسے لوگ ہیں انھیں  ابتک بیان ،کالم ،مضمون ،اور دیگر نثری اصناف کی فرق معلوم نہیں ہے مگر اپنے آپ کو فلاسفر سمجھتے ہیں گویا وہی سیاستدان،وہی ڈاکٹر ،وہی وکیل ،وہی ادیب ،وہی صحافی وہی جہد کا قوم کا  پیشوا ہیں ۔
مگر کامریڈ شوکت کتابوں کا مطالعاتی کیڑا ہونے باوجود کبھی نہیں کہاکہ  کتنا جانتا ہے ۔
کامریڈ کے موت کا اچانک سن کر زمین پاؤں تلے نکل گیا،دو تین گھنٹے تک کچھ خیا ل نہیں آیا آنسوں خشک تھے،دل پر کسی بھاری  پتھر کا بوجھ پڑ رہاتھا ۔دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی ،دوائی لی،ٹینشن فری گولی شاید زندگی میں دوسری بار لے رہاتھا لے لیا ،جس کے بعد آنسوں کی روانی شروع ہوئی دل کا بوجھ ہلکا ہوا مگر زندگی بھر یہ پشتاوا رہے گا کہ آخری لمحات میں ان سے کیوں بات نہیں ہوپائی ،وہ بیماری کے لمحات میں یقینا یاد کر رہے ہونگے ،کیوں کہ مجھے پچھلے دس دن سے ان کی یاد بار بار آرہی تھی مگر نہ جانے کیوں بات نہیں کی ۔
اپنے غم کو کم کرنے کیلے یہ سوچتا ہوں اچھا ہوا وہ ہم منافقوں کا ساتھ چھوڑ گئے ،پچھلے 20 / 25 سالوں کا ہم نے انھیں کیا پھل دیا ،جو ہمارے لیے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے،سردی گرمی میں چندہ اکٹھا کرتے تھے ، ہم تو فون پر ان کی خیریت دریافت کرنے کیلے وقت نہیں دے سکے ،علاج تیمارداری ،محنت لگن کی حوصلہ افزائی دور کی بات ہے ۔
کامریڈ شوکت ،چاکر ڈارلنگ اور ڈون جیسے  مکمل انسان کو ہمارے بلوچستان اور بلوچ قوم میں پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ کیوں کہ ہم کسی مکمل نسان کی قدر کر نے ذوق نہیں رکھتے ،بدقسمتی سے ابتک ہم نہیں جان پائے انکی موت زہر سے  یا کسی اور بیماری کی وجہ ہوئی۔
جہاں خون ،پسینہ،علم دانش ،جفاکشی ،محنت لگن ،شعور رکھنے والوں کی کوئی قدر نہیں کرتے، اگر کرتے ہیں تو اپنا کام نکالنے کی حد تک کرتے ہیں ۔
کام پورا تو رات گئی بات گئی وہ بھاڑ میں جائے پھر نئے کندھے کی تلاش شروع کردیتے ہیں جو صرف ہمارے لیے جیئے اس کااپنا کچھ نہ ہو ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post