بلوچستان ،ڈیجیٹل پروپیگنڈہ اور پروپیگنڈہ کانفرنسیں تحائف ،دعوتیں مراعات ،اربوں روپے کی بارش صحافی کیّا بلوچ کی تحقیقاتی رپورٹ

 


 مالی سال 2024-25 اور 2025-26 میں وزیراعلیٰ بلوچستان سیکریٹریٹ نے صرف تفریح، تحائف اور پروپیگنڈہ ورکشاپس کے لیے بجٹ میں ہوشربا اضافہ کیا۔

تفریح و تحائف کی مد میں مختص رقم کو 40.5 کروڑ روپے سے بڑھا کر 118.3 کروڑ روپے کر دیا گیا یعنی تقریباً تین گنا اضافہ۔

جبکہ کانفرنسز اور ورکشاپس کے لیے دو کروڑ روپے مختص کیے گئے، جنہیں تین سرکاری ذرائع کے مطابق آن لائن اور آف لائن پروپیگنڈہ مہمات پر خرچ کیا جا رہا ہے۔

یہ پیسہ خاص طور پر براق ڈیجیٹل جیسے پلیٹ فارمز پر حکومت کے بیانیے کو پھیلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ بلوچ نوجوان اس نوع کے ریاستی پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوتے، اس لیے ان مہمات کے نہ صرف محرکین غیر بلوچ ہیں بلکہ سامعین بھی زیادہ تر غیر بلوچ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ ڈیجیٹل پروپیگنڈہ اور ’پروپیگنڈہ کانفرنسیں‘ درحقیقت سرفراز بگٹی کے وزیراعلیٰ بننے کے فوراً بعد شدت اختیار کر گئیں۔

صرف ایک ماہ بعد، 19 سے 21 اپریل 2024 کو کوئٹہ میں ایک پرتعیش کانفرنس منعقد کی گئی جس کا مقصد ریاستی بیانیے کو فروغ دینا اور جبری گمشدگیوں پر ہونے والی تنقید کا توڑ کرنا تھا۔

اس تین روزہ ایونٹ پر 2 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔

اس تقریب کی منصوبہ بندی اور میزبانی حکومتِ بلوچستان کی سابق ترجمان اور موجودہ ایم پی اے فرح عظیم شاہ نے کی۔

اس تقریب کو "بلوچستان کا سافٹ امیج" اجاگر کرنے کے نام پر پیش کیا گیا، مگر اندرونِ خانہ مقصد لاپتہ افراد کے معاملے کی نفی کرنا تھا۔ اسی بات کا زکر سرکاری دستاویزات میں بھی موجود ہے۔ 

‏ غریب صوبے کا امیر وزیر اعلیٰ۔  کہاں خرچ ہو رہا ہے عوام کا پیسہ؟

بلوچستان کے عوام کے نام پر ہر سال اربوں روپے کے بجٹ کی منظوری دی جاتی ہے مگر 2024-25 اور 2025-26 کی سرکاری دستاویزاتبتاتی ہیں کہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا بجٹ دراصل عوامی بہبود نہیں بلکہ ذاتی پروٹوکول، تشہیر اور شاہانہ طرزِ حکمرانی پر خرچ ہو رہا ہے۔

⭕️ VIP سفر اور پیٹرول کی شاہ خرچیاں:

وزیراعلٰی سیکرٹریٹ کے عملے کے سفری اخراجات کے لیے 2 کروڑ 15 لاکھ روپے رکھے گئے مگر یہ رقم بڑھا کر 2 کروڑ 77 لاکھ روپے کر دی گئی۔

اسی طرح VIP طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے لیے پیٹرول و آئل کا بجٹ 3 کروڑ 41 لاکھ سے بڑھا کر 8 کروڑ 41 لاکھ کر دیا گیا یعنی 146 فیصد اضافہ!

⭕️ تحفے، دعوتیں، اور تفریح:

تفریح، ظہرانوں، استقبالیوں اور تحائف کی مد میں 40.5 ملین روپے کی ابتدائی رقم کو بڑھا کر 118.3 ملین روپے کر دیا گیا تین گنا اضافہ!

دو حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ عوامی بہبود کے بجائے ریاستی پروپیگنڈہ اور خوشامدی تقریبات پر لٹایا جا رہا ہے۔

⭕️ پروپیگنڈہ کانفرنسز اور ورکشاپس:

ان سرگرمیوں پر ابتدائی طور پر 21.4 ملین روپے مختص کیے گئے، بعد میں کم کر کے 17.1 ملین کر دیے گئے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ان کانفرنسز کا مقصد پالیسی سازی نہیں بلکہ آن لائن پروپیگنڈہ کو فروغ دینا ہے  خاص طور پر ان پلیٹ فارمز پر جہاں بلوچ بیانیے کو دبایا جاتا ہے۔

⭕️ پروٹوکول پر دولت کی بارش:

ہیلی کاپٹرز، گاڑیاں، مرمت، ایندھن، سیکیورٹی یونیفارمز ،ہر شے کے لیے لاکھوں روپے الگ سے مختص ہیں۔

یہ تمام اخراجات وزیراعلٰی کے اردگرد گھومنے والے پروٹوکول کلچر کا حصہ ہیں۔

❌ عوام کے لیے؟ صرف 7.5 ملین روپے!

جبکہ جمال رئیسانی کے شہداء کے خاندانوں اور غریب شہریوں کی امداد کے لیے صرف 7.5 ملین روپے رکھے گئے ہیں یعنی کے 75 لاکھ  جو VIP چائے خانوں کے خرچے سے بھی کم لگتے ہیں۔

سرکاری ذرائع کیا کہتے ہیں؟

سرکاری ذرائع کا کہناہے کہ بلوچستان میں عوامی فلاح، تعلیم، صحت یا سبسڈی کوئی ترجیح نہیں۔

اصل ترجیح طاقتوروں کے پروٹوکول، آن لائن پروپیگنڈہ اور شاہانہ زندگی ہے۔

اس پروپیگنڈہ مہم کے مرکزی اور متحرک چہرے کون ہیں؟

اس آن لائن اور آف لائن ریاستی پروپیگنڈہ مہم کا ایک نمایاں اور متحرک چہرہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی وکیل تانیا بازئی ہیں۔ ماضی میں تانیا خود کو انسانی حقوق کی علمبردار اور بلوچ حقوق کے حامی کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں لیکن ان کے ماضی اور تعلیم سے متعلق کئی سوالات موجود ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تانیا کی قانون کی ڈگری مشکوک ہے۔ اُنہوں نے بیک وقت بیوٹمز (BUITEMS) کوئٹہ سے الیکٹرانک انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور اسی دوران کوئٹہ سے ایل ایل بی اور پھر ایل ایل ایم بھی مکمل کیا۔ کیا ایک فرد بیک وقت دو مختلف شعبوں میں ڈگری حاصل کر سکتا ہے؟ یہی سوال اُن کے کیریئر پر سوالیہ نشان بن گیا۔

یہی وجہ ہے کہ جب تانیا 2019 میں اسلام آباد منتقل ہوئیں تو انہیں وکالت میں انٹرن شپ کے مواقع بھی مشکل سے ملے۔ خود تانیا نے تسلیم کیا کہ اسلام آباد کے وکلاء نے انہیں ملازمت یا معاونت کی پیشکش نہیں کی کیونکہ اُن کا تعلق بلوچستان سے تھا لیکن اس کی وجہ ان کا "بلوچستان ڈومیسائل" نہیں بلکہ ان کی ڈگری کی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات تھے۔

ابتدائی طور پر، تانیا نے بلوچ طلبہ کے لیے آواز بلند کی اور 2023 میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین کے مقدمات بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں لڑے۔ اس سے انہیں اسلام آباد کی وکلاء برادری میں تھوڑی پہچان ملی اور وہ بلوچ حقوق کی جدوجہد سے خود کو جوڑ کر مقبولیت حاصل کرنے لگیں۔

تاہم، جیسے ہی انہیں مقبولیت ملی، تانیا نے حیران کن طور پر یوٹرن لیا۔ جو شخص سرفراز بگٹی، فوج، اور پنجاب پر تنقید کیا کرتی تھیں، اچانک انہی کی بھرپور حمایت کرنے لگیں۔

ذرائع کے مطابق تانیا نے اپنا ضمیر اُس وقت کے نگران وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ کے ہاتھ بیچ دیا۔ اسی دور میں ان کے ماموں، مشہور فنکار و ادیب جمال شاہ کو کابینہ میں وزیرِ ثقافت و ورثہ مقرر کیا گیا۔ اس تقرری کے بعد تانیا بازئی کو نہ صرف چینی سفارتخانے سے روابط ملے بلکہ مالیاتی معاہدے اور پیشکشیں بھی حاصل ہوئیں۔

تانیا نے بلوچ اور پشتون حقوق کے لیے چلائی گئی اپنی مہم کو ترک کرتے ہوئے پنجاب کی پرجوش وکالت شروع کر دی۔ ایک ایسا پنجاب جس پر وہ ماضی میں تنقید کیا کرتی تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران ان کی متنازعہ تعلیمی ڈگری کا معاملہ بھی "حل" ہو گیا۔ ایک سینئر وکیل کے مطابق، تانیا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بیکن ہاؤس اسکول کوئٹہ کی طالبہ رہی ہیں مگر وہ انگریزی کا ایک پیراگراف لکھنے سے قاصر ہیں۔ متعدد وکلاء نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی انگریزی زبان کی مہارت کو بہتر بنائیں مگر بہتری کی کوئی واضح کوشش نظر نہیں آئی۔

‏ جب تانیا بازئی بلوچ حقوق کی نمائندہ بن کر خاطر خواہ آمدن یا کیریئر نہ بنا سکیں لیکن انہیں مقبولیت ضرور حاصل ہوئی، تو انہوں نے اسی مقبولیت کو چینی سفارتکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اُنہوں نے اپنی ماضی کی سرگرمیوں کو پیش کر کے چینیوں کو یہ تاثر دیا کہ وہ بلوچ حقوق کی اصل نمائندہ ہیں، حالانکہ بلوچستان کے اندر اُن کی کوئی عوامی یا زمینی حیثیت نہیں تھی۔ انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی نمائندگی بھی کی اور آج انہی ماہ رنگ بلوچ پر "بھارتی ایجنٹ" ہونے کا الزام لگا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے: جب تانیا ماضی میں ان کا قانونی دفاع کر رہی تھیں تو کیا تب انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک مبینہ بھارتی ایجنٹ ہیں؟ اگر معلوم تھا تو ان کا ساتھ کیوں دیا؟ اور اگر معلوم نہیں تھا، تو آج وہ یہ دعویٰ کس بنیاد پر کر رہی ہیں؟ یہ تضاد صرف تانیا کے بیانیے ہی کو مشکوک نہیں بناتا، بلکہ ان کے ارادوں اور مقاصد کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔

‏ایک اور نمایاں پروپیگنڈہ باز بابر خجک ہے، جو تحریکِ جوانانِ بلوچستان کا متحرک رہنما اور جنرل حمید گل کا کٹر مداح ہے۔ یہ وہی بابر خجک ہے جو کبھی سخت گیر اسلام پسند ہوا کرتا تھا اور پاکستانی فوج کو "کافر" قرار دیتا تھا کیونکہ وہ فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت میں مؤثر کردار ادا نہیں کر رہی تھی اور فرانس سے گستاخی کے معاملے پر سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے گئے تھے۔

بابر خجک، جو کبھی اسٹیبلشمنٹ، فوج، پیپلز پارٹی اور پنجاب کو بلوچستان کی غربت، پسماندگی اور نظراندازی کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا، آج پیپلز پارٹی بلوچستان کا سینیئر رہنما ہے۔ کبھی وہ سندھ کو بلاول کی وجہ سے کربلا قرار دیتا تھا، اور آج انہی لوگوں کا ترجمان بن چکا ہے۔ گوادر کے مسائل اور بلوچستان کی ترقی کے نعروں کے ذریعے اس نے اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردی حاصل کی، اور جب اسے اسٹیبلشمنٹ کا قریب ہونے کا موقع ملا، تو وہ بلوچ حقوق تحریک کا بدترین ناقد بن گیا۔

یہ تمام لوگ جو آج براق ڈیجیٹل جیسے پلیٹ فارمز پر بیٹھ کر بلوچ قوم پر الزامات لگاتے ہیں وہی ہیں جو ماضی میں بلوچ حقوق تحریک کے سرگرم حامی تھے۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے پیسہ اچھالا، تو انہوں نے موقعے کو کیش کر لیا۔ وہی لوگ، جو کبھی پاکستانی فوج کو "کافر" اور "کفار کا دوست" کہتے تھے، آج بلوچوں کو "بھارتی ایجنٹ" قرار دے رہے ہیں۔

اور یاد رکھیے، ان میں سے کسی کو بلوچستان کے عوام میں کوئی حقیقی حمایت حاصل نہیں۔ یہ سب لوگ صرف بلوچ شناخت اور بلوچ مسلے کو استعمال کر کے اپنے کیریئر بنانے میں مصروف ہیں۔ جس دن اسٹیبلشمنٹ ان کا نوالہ بند کرے گی، یہ دوبارہ یوٹرن لے لیں گے جیسے ماضی میں لیتے رہے۔

‏ چیف منسٹر سیکریٹریٹ نے صوبے کے زمینی مسائل کو حل کرنے کے بجائے ایک مصنوعی بیانیہ قائم کرنے پر اپنی پوری توانائی مرکوز کر رکھی ہے۔ 

2020 سے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایک چالیس سے زائد افراد پر مشتمل ڈیجیٹل ٹیم بھرتی کی گئی ہے جو سالانہ کروڑوں روپے کے بجٹ سے چلائی جا رہی ہے۔ یہ ٹیم سینکڑوں جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلاتی ہے جن میں زیادہ تر ناموں میں "بلوچ" بطور عرف استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ آوازیں بلوچ نوجوانوں کی ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام پروپیگنڈہ کرنے والے افراد غیر بلوچ ہیں اور ان کی مہم کا اصل ہدف بھی بلوچ نوجوان نہیں بلکہ پنجاب کی عوام ہے۔ اس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ بلوچستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے  لاپتہ افراد کی تحریک، انسانی حقوق کی آواز، مزاحمت، وہ سب کچھ کسی غیر ملکی حکومت یا دشمن ایجنسی کے اشارے پر ہو رہا ہے۔

یہ پروپیگنڈہ نہ صرف بلوچستان کے حقیقی مسائل کو دبا دیتا ہے بلکہ اس سے ریاستی جبر، جبری گمشدگیاں، اور انسانی حقوق کی پامالی کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کے اس جعلی بیانیے کا فائدہ صرف چند مخصوص چہروں کو ہوتا ہے — جن کا بلوچ عوام سے کوئی تعلق نہیں، اور جنہیں عوامی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post