سکھر ( ویب ڈیسک ) براہوئی سندھی ادب کے معروف ادیب ،محقق ، دانشور اور مصنف جوہر براہوئی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ۔
جوہر براہوئی کی ولادت 29 جنوری 1950ئ کو تھریچانی ضلع سکھر سندھ میں ہوئی۔ والدین نے عبدالقیوم رکھا۔ وہ بڑے ہوکر ادب سے تعلق رکھنے کی بنائ قلمی نام جوہر براہوئی چُن لیا۔والد بزرگوار کا نام قاضی عبدالکریم ذبیح تھا جو اپنے وقت عالم دین تھا۔ جوہر براہوئی صاحب دینی تعلیم پڑھی دستار فضیلت حاصل کرنے کے بعدیونین کونسل فرید آباد ،تحصیل میہڑ، ضلع دادو سندھ میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس کا نام مدرسہ عربیہ محمدیہ تجویز کیاگیا۔اسی دینی درس گاہ وہ درس و تدریس مصروف ہوئے۔
علامہ جوہر براہوئی جہاں دینی تعلیم کے فروغ میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے، وہاں علم و ادب سے بھی کافی شغف تھا۔ وہ سب سے پہلے تو وہ شاعری میں طبع آزمائی کرنے لگے مگر بہت جلد ادب کے دیگر اصناف بھی لکھنے لگے۔ خاص طور پر براہوئی انشائیہ کو ایک نیا رنگ اور نیا اسلوب دیا ۔سنگت پبلی کیشن اور رباہوئی پبلی کیشن فریدآباد کے نام سے اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور جرائد نکالے، براہوئی شعرائ و ادب کی ھوصلہ افزائی کے لیے گران خدمات سرانجام دیں۔براہوئی میں حمد، نعت اور سیرت پہ ان کی خدمات بے مثال رہیں۔
علامہ جوہر براہوئی صاحب براہوئی کے علاوہ سندھی کے بھی اہم شاعر تھے اردو میں بھی لکھتے تھے۔ان کی شاعری قومی ، اصلاحی اور معاشرتی تھی۔ اسی طرح انہوں نے جو کام نثر میں کیا وہ بھی بے نظیر تھا۔
1991ئ میں جوہر براہوئی صاحب کا نعتیہ مجموعہ ’’روشنائی‘‘ شائع کیاگیا۔
1991ئ میں ہی ان کی شاعری کی دوسری کتاب ’’شیموش‘‘ شائع ہوگئی۔
1992ئ میں ان کی مرثیہ شاعری کی کتاب ’’شاد و زباد‘‘ شائع ہوگئی۔
1995ئ میں ان کی غزلیہ شاعری کی کتاب ’’کاروان‘‘ شائع ہوگئی۔
1996ئ میں جوہربراہوئی صاحب کے انشائیوں کا مجموعہ ’’شکر پھل‘‘ شائع ہوگیا۔
1997ئ میں ان کا شعری مجموعہ ’’احوال غم‘‘ منظر عام پر آیا۔
1998ئ میں ان کی شاعری کی ایک اور کتاب جو بچوں کے لیے تھی ’’لولی‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی۔
2000ئ میں ان کی اردو میں لکھی گئی تحقیقی کتاب’’براہوئی تخلیق کار‘‘ شائع ہوگئی۔
2001ئ میں ان کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’گلدستہ سندھ‘‘ شائع ہوگئی، جس میں سندھ میں رہائش پذیر براہوئی شعرائ کرام کلام مع تعارف یکجا کیاگیا ہے ۔
2001ئ میں سندھی میں ان کی ایک کتاب ’’امام العصر‘‘ شائع ہوگئی۔
2003ئ میں سیرت میں ان کی کتاب ’’سیرت سیدالمرسلینö‘‘ شائع ہوگئی۔
2004ئ میں ایک کتاب ’’فرید‘‘ کے نام سے ترتیب دے کر شائع کروائی، جس میں سندھ اور بلوچستان میں منعقدہ ادبی سیمینار ز کی رپورٹوں کو شامل کی گئی ہیں۔
2006ئ میں سندھی کے نامی گرامی صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا براہوئی ٹی ترجمہ ’’لطیفی توار‘‘ کے نام سے چھپوایا۔
2006ئ میں اردو میں مختلف کتابوں پر کیے گئے تبصروں کووکتابی صورت میں ’’کتاب رنگ‘‘ کے نام سے شائع کروائے۔
2008 ئ میں ان کی شاعری نا مجموعہ ’’حرفاتا خوشبو‘‘ شائع ہوگیا۔
2009ئ میں جوہر براہوئی کی حمدیہ شاعری نا مجموعہ ’’اللہ اکبر‘‘ شائع ہوگئی۔
2015ئ میں ایک سندھی کتاب بنام ’’شہید علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو‘‘ شائع کروائی۔
2017ئ میں سندھی شعرائ کے ادبی شہ پارے ان کے تعارف کے ساتھ براہوئی میں ترجمہ کرکے ’’سندھ رنگ‘‘ کے نام سے شائع کرواےا۔
2023ئ میں ایک کتاب ’’غزل رنگ‘‘ کے نام سے مرتب کی جس میں اپنے جریدے ’’سنگت‘‘ فرید آباد میں شائع شدہ کلام کو یکجا کیاگیا ہے، جس میں 80ئ کی دہائی میں جن شعرائ کے کلام سنگت میں شائع ہوچکے تھے، ایسے 66 شعرائ کے کلام شامل ہے۔
اس کے علاوہ علام جوہر براہوئی صاحب کے کچھ دیگر تخلیقات ہیں جو کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں جن پر سن اشاعت تحریر نہیں ، ان میں ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’’گوریچ‘‘ ، براہوئی ادبی سیمیناروں کی رپورٹ ’’ڈغار‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح سندھی ادب میں ان کی کتاب ’’نور مبین‘ ‘ اور ’’ختم نبوت‘‘ بھی شامل ہیں۔
علامہ جوہر براہوئی کی شخصیت ہمہ جہت تھی، وہ ایک بڑے عالم دین تھے، بڑے شاعر اور سیرت نگار تھے، ادیب تھے ، دانشور تھے۔ علامہ جوہر براہوئی کی سب بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بڑے ہنس مکھ اور ملنسار انسان تھے۔
علامہ جوہر براہوئی کا ایک منفرد کارنامہ یہ تھا کہ وہ ایک اعلیٰ پایہ کا منتظم تھے۔ وہ 1990ئ میں براہوئی ادبی سیمیناروں کے سلسلہ شروع رکھا تھا جو ششماہی ہوا کرتا تھا۔ اس سلسلے کا موسمِ گرما کا سیمینار پہلے تو خضدار اس کے بعد قلات ، مستونگ ، کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں ہوا کرتا تھا اور موسم سرما کا سمینار ہمیشہ فرید آباد سندھ میں علامہ جوہر براہوئی ہی کے ہاں اور ان کی نگرامی میں منعقد ہوا کرتا تھا۔
علامہ جوہر براہوئی مختلف ادوار میں سیرت سمیت مختلف ادیب ایوارڈز لیے تھے۔ حال ہی براہوئی میں براہوئی اکیڈمی پاکستان نے انہیں ڈاکٹر ایم صلاح الدین مینگل ایوارڈ بھی دیا تھا جو وہ خود اپنی ناسازی طبیعت کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے، ان کا ایوارڈ وہیں ان کے قدموں میں نچھاور کرنے کے لیے بھجوادیا گیا۔
علامہ جوہر براہوئی اصاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، وہ ایک شخص کا کام نہیں بلکہ ایک اکیڈمی کا کام سرانجام دے کرچلے گئے۔ آج صبح یہ مغمور کردینے والی خبر آئی ہے کہ علامہ جوہر براہوئی صاحب اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ اناللہ انالیہ راجعون، اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاکرے۔