بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، حقیقت، ریاستی بیانیہ اور سچ کو جھٹلانے کی منظم حکمتِ عملی. رپورٹ: بلوچ وائس فار جسٹس

 

بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے ایک ایسے بحران سے دوچار ہے جس کی جڑیں انسانی حقوق کی شدید پامالی اور ریاستی اداروں کے غیرقانونی کردار میں پیوست ہیں۔ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور شہری آزادیوں کی منظم خلاف ورزی ایک ایسا تسلسل بن چکی ہیں جو ریاستی اداروں کے انکار، پروپیگنڈے اور جھوٹ پر قائم ہے۔ نہ صرف زمینی سطح پر بلکہ ڈیجیٹل میدان میں بھی ان مظالم کو جھٹلانے اور متاثرین کو مشکوک بنانے کی ایک مکمل ریاستی مشینری کام کر رہی ہے۔

ریاستی ادارے اور ان کے ہمنوا اکثر انسانی حقوق کے اداروں، صحافیوں اور بلوچ سیاسی کارکنوں کی جانب سے جبری گمشدگیوں کی نشاندہی کو "پروپیگنڈہ" یا "غلط فہمی" قرار دے کر مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں نے ایک ایسی حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے جس کا مقصد نہ صرف جرم کو چھپانا بلکہ متاثرین کے خلاف عوامی تاثر کو بھی مسخ کرنا ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ریاستی حمایت یافتہ اکاؤنٹس نے 9 اور 10 جولائی 2025 کی درمیانی شب ضلع سوراب میں ایک جھڑپ میں مارے جانے والے ہارون بلوچ، جو نوشکی کے علاقے کیشنگی ملغانی کا رہائشی ہے، کو ریاستی اکاؤنٹس اور سیکیورٹی ذرائع ہارون بلوچ سے جوڑنے لگے جس کو خضدار کے علاقے کوڑاسک سے لاپتہ کیا گیا ہے اور یہ تاثر دیا کہ بلوچ حلقوں کی طرف سے لاپتہ افراد کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں یہ پروپیگنڈہ مہم ایک منظم ریاستی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
یہ کوئی نئی حکمتِ عملی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسے متعدد کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ ناموں کی مشابہت کو بنیاد بنا کر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک ہی شخص ظاہر کیا گیا تاکہ ریاستی جبر کے خلاف ثبوتوں کو متنازعہ بنایا جا سکے۔ اس قسم کے اقدامات صرف سچ کو مسخ کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک متاثرہ قوم کی اجتماعی یادداشت اور جدو جہد کو مٹانے کی کوشش بھی ہیں۔
یہ بیانیہ سازی صرف محدود حلقوں میں نہیں بلکہ باقاعدہ ریاستی سطح پر پروپیگنڈا پالیسی کے تحت ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا، خاص طور پر ٹوئٹر (X) اور فیس بک پر متعدد جعلی یا ریاستی سرپرستی میں چلنے والے اکاؤنٹس نہ صرف لاپتہ افراد کی اصل شناخت کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کو "ریاست دشمن"، "غدار" اور "ملک دشمن عناصر کے سہولت کار" قرار دیتے ہیں۔ ان بیانیوں کا مقصد جبری گمشدگی جیسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جرم کو ایک "سیکیورٹی مسئلہ" کے طور پر پیش کرنا ہے، اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی 2021 کی رپورٹ میں لکھتا ہے:
"بلوچستان میں جبری گمشدگی نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ ریاستی اداروں کی منظم حکمتِ عملی کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ افراد کو ان کے گھروں سے اٹھا کر نامعلوم مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے اور ان کے خاندانوں کو مہینوں، بلکہ برسوں تک کوئی اطلاع نہیں دی جاتی۔"
اسی طرح ہیومن رائٹس واچ نے 2011 کی رپورٹ میں لکھا:
"ریاستی ادارے متاثرین کے خاندانوں کو انصاف کے بجائے دھمکیاں دیتے ہیں، اور میڈیا کو دباؤ کے تحت خاموش کروایا جاتا ہے۔ یہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیاں محض 'غلطیاں' نہیں بلکہ ایک پالیسی کا حصہ ہیں۔"
اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیاں نے 2020 کی رپورٹ میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
"پاکستان نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر خاطر خواہ شفافیت نہیں دکھائی۔ جو افراد لاپتہ ہیں ان کے کیسز کو یا تو جھٹلایا جاتا ہے یا انہیں دہشتگردی سے جوڑ کر مار دیا جاتا ہے۔"
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کہ
"کسی شخص کو اس کی زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سوائے قانون کے تحت۔"
مگر جبری گمشدگی اس اصول کی سراسر خلاف ورزی ہے، اور ریاستی ادارے نہ صرف اس میں ملوث ہیں بلکہ عدالتی احتساب سے بھی آزاد ہیں۔
جبری گمشدگی محض ایک فرد کا غائب ہونا نہیں ہے، یہ ایک خاندان کی روحانی، نفسیاتی اور سماجی تباہی کا عمل ہے۔ وہ ماں جو برسوں سے اپنے بیٹے کی واپسی کی راہ دیکھ رہی ہے، وہ بہن جو ہر دستک پر چونک جاتی ہے، وہ بچہ جو روزانہ اپنے والد کے بارے میں سوال کرتا ہے — یہ تمام زندہ اذیت کی تصویر ہیں۔ جبری گمشدگی کسی انسان کی زندگی کو صرف جسمانی طور پر ختم نہیں کرتی، بلکہ اس کی شناخت، اس کے خاندان، اور اس کی برادری کو اجتماعی زخم دے جاتی ہے۔
یہ زخم تبھی بھر سکتے ہیں جب ریاست سچ کا سامنا کرے، مظلوموں کی آواز کو تسلیم کرے، اور قانون کو طاقت کے تابع کرنے کے بجائے طاقت کو قانون کے تابع کرے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post