ریاستیں عوام کے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ ایک مہذب ریاست کی بنیاد ہی اس اصول پر ہوتی ہے کہ ہر شہری اپنے حصے کا مالی تعاون (ٹیکس) دے اور ریاست بدلے میں اُن کے جان و مال، صحت تعلیم روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات کی ضامن ہو۔ یہ ایک مقدس سماجی معاہدہ ہوتا ہے جس میں ریاست اور عوام ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ سماجی معاہدہ یک طرفہ بنتا جا رہا ہے۔ عوام اپنا فرض نبھاتے ہوئے بجلی پانی پیٹرول اشیائے خوردونوش اور ہر ممکن جگہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن ان کے بدلے میں جو کچھ انہیں ملتا ہے وہ صرف وعدے دعوے اور نا مکمل منصوبے ہوتے ہیں۔ عوام سے ووٹ لینے کے لیے سیاست دان چوکوں چوراہوں مساجد اور جنازوں تک میں حاضر ہوتے ہیں بڑے بڑے منشور اور سنہرے خواب سنائے جاتے ہیں مگر جب وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں تو اُن خوابوں کی تعبیر کہیں کھو جاتی ہے۔
ترقیاتی منصوبے، جن کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہونا چاہیے، اکثر صرف ذاتی مفاد اور کمیشن خوری کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر ہو اسکولوں کی عمارتیں یا دیہی اسپتال اکثر منصوبے ناقص مٹیریل اور بےقاعدہ نگرانی کے باعث ابتدائی دنوں میں ہی شکستہ حال ہو جاتے ہیں۔ ایک منصوبے پر جو رقم عوام کی فلاح پر خرچ ہونی تھی وہ چند ہاتھوں میں بندر بانٹ ہو جاتی ہے۔ یوں عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والا ٹیکس ان ہی کے خلاف ایک جرم بن جاتا ہے۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ سلسلہ صرف حکومتی حلقوں تک محدود نہیں بلکہ حزبِ اختلاف بھی محض تنقید کی حد تک محدود رہتی ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے قانون سازی احتجاج یا اسمبلی میں موثر آواز اٹھانے کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست غالب رہتی ہے۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے اگر ہم نے اپنے اداروں کو دیانت شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر مستحکم نہ کیا تو ناانصافی غربت اور بدامنی کا دائرہ مزید وسیع ہو گا۔ عوام کا ریاست پر اعتماد تب ہی بحال ہو سکتا ہے جب اُن کے پیسے کی قدر کی جائے اور ان کے مسائل کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جائے۔
ریاست کو چاہیے کہ ٹیکس کے پیسے کو ایک امانت سمجھے۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اقتدار کو خدمت کا ذریعہ بنائیں اور عوام کو بھی اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھے بغیر محض جذباتی نعروں پر بھروسہ نہ کریں۔
ایک باوقار ریاست وہی ہوتی ہے جہاں حکومت حزبِ اختلاف اور عوام تینوں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے نبھائیں۔
(نوٹ تحریر لکھاری کا اپنا سوچ ہے ، ہمارے ادارہ کا اس سے تعلق نہیں ،ہم عوامی بھلائی ،اور چور حکمرانوں کی نشاندہی کے مقصد سے اپنے بلاگ پر شائع کر رہے ہیں تاکہ عوام چور لٹیرے حمکرانوں نمائندوں سے ہوشیار رہے کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں )