بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کاروبار: ایک پسماندہ خطے کی محرومی

 


بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقے ایک منفرد چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں جہاں قانونی کاروبار کے مواقع انتہائی محدود ہیں، اور اکثر بارڈر پر ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کو "اسمگلنگ" کا نام دے کر انہیں روک دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی آبادی کو نان شبینہ کا محتاج بنا رہی ہے بلکہ اس سے بلوچستان کے دیرینہ احساسِ محرومی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے تہہ میں تاریخی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی عوامل کارفرما ہیں۔

سرحدوں پر تجارت کا عالمی منظرنامہ اور بلوچستان کا تضاد

دنیا بھر میں سرحدیں دو ملکوں کے درمیان محض ایک لکیر نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اقتصادی سرگرمیوں کے بڑے مراکز بھی ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی سرحدوں پر باقاعدہ قانونی تجارتی راستے، کسٹم کی سہولیات، اور تجارتی زونز قائم کیے جاتے ہیں تاکہ دونوں اطراف کے لوگ باآسانی کاروبار کر سکیں۔ یہاں تک کہ بھارت اور پاکستان، جو کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے روایتی حریف رہے ہیں، ان کے درمیان بھی قانونی کاروبار کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے، چاہے وہ محدود ہی کیوں نہ ہو۔ واہگہ بارڈر اس کی ایک بڑی مثال ہے جہاں کچھ مخصوص مصنوعات کی باقاعدہ تجارت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک کے درمیان دبئی اور سنگاپور جیسے تیسرے ممالک کے ذریعے بھی بالواسطہ تجارت عروج پر ہے۔

اس کے برعکس، بلوچستان میں ایران اور افغانستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہاں کے باسیوں کے لیے جو تیل، ڈیزل، اور دیگر ضروری اشیاء لانے اور لے جانے کا واحد ذریعہ ہیں، اسے "اسمگلنگ" کا لیبل دے دیا جاتا ہے اور ان پر سخت پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ اس سخت گیری کی وجہ سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں قانونی اور باقاعدہ کاروبار نہیں چل سکتا؟ کیا یہاں کے باشندے کسی دوسرے درجے کے شہری ہیں جو اپنے بنیادی حق، یعنی باعزت روزگار سے بھی محروم رکھے جائیں؟

بلوچستان مکران بارڈر پر پابندیاں اور مقامی آبادی پر اثرات

مکران ڈویژن میں، خاص طور پر ایرانی سرحد سے ملحق علاقوں میں، ہزاروں خاندانوں کا گزر بسر ایران سے آنے والے سستے تیل، ڈیزل، اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی تجارت پر ہوتا ہے۔ یہ کوئی بڑی اسمگلنگ نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر ہونے والی یہ سرگرمیاں مقامی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ جب ان راستوں کو بلاک کیا جاتا ہے، تو اس کا براہ راست اثر ان مزدوروں، ڈرائیوروں، اور چھوٹے دکانداروں پر پڑتا ہے جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔

بلوچستان کے سرحدی اضلاع، جیسے کہ تربت، گوادر، پنجگور، اور چاغی، صدیوں سے سرحد پار تجارت پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ یہ علاقے قدرتی وسائل اور صنعتی ڈھانچے سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے روزگار کے متبادل مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب سرحد پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور وہاں سے ہونے والی تجارت کو اسمگلنگ کا نام دے کر روکا جاتا ہے، تو یہ بنیادی طور پر مقامی افراد کو نان شبینہ سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ لوگ بھوک سے مرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر مایوسی کے عالم میں دیگر غیر قانونی راستوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، جس سے سیکیورٹی کے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔

حکومت کا موقف عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ یہ پابندیاں سیکیورٹی خدشات، دہشت گردی، اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن یہ نقطہ نظر مقامی آبادی کی معاشی مجبوریوں کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اسمگلنگ اور دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی مقامی لوگوں کے لیے قانونی کاروبار کے راستے کھولے جائیں؟

قانونی کاروبار کے مواقع اور حکمت عملی

بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں قانونی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع اور مدلل حکمت عملی کی ضرورت ہے:

 * قانونی تجارتی مراکز کا قیام: سرحدوں پر مزید باقاعدہ اور جدید تجارتی مراکز قائم کیے جائیں جہاں کسٹم کلیئرنس کا نظام آسان اور تیز ہو۔ ان مراکز پر مقامی افراد کو ترجیح دی جائے اور انہیں تجارت کی باقاعدہ اجازت دی جائے۔

 * خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کا قیام: سرحدی علاقوں میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کیے جائیں جہاں مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور درآمدی و برآمدی قواعد کو نرم کیا جائے۔ اس سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور لوگوں کا انحصار غیر رسمی تجارت پر کم ہوگا۔

 * ترجیحی تجارتی معاہدے: ایران اور افغانستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدے کیے جائیں جو بلوچستان کی مقامی آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھیں۔ ان معاہدوں کے تحت کچھ مخصوص اشیاء پر ڈیوٹیز کم کی جائیں تاکہ قانونی تجارت مہنگی نہ پڑے۔

 * کمیونٹی کی شمولیت: سرحدی علاقوں کی انتظامیہ میں مقامی قبائلی رہنماؤں اور کمیونٹی کے نمائندوں کو شامل کیا جائے تاکہ ان کی ضروریات کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ ان کے مشوروں سے پالیسیاں بنائی جائیں جو ان کے معاشی حالات سے ہم آہنگ ہوں۔

 * متبادل روزگار کے مواقع: حکومت کو چاہیئے کہ وہ سرحدی اضلاع میں تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرے۔ چھوٹے کاروباروں کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں اور زراعت و لائیو سٹاک کے شعبے کو فروغ دیا جائے۔

نتیجہ

بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں قانونی کاروبار کو فروغ دینا نہ صرف مقامی آبادی کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہے بلکہ یہ سیکیورٹی کو بہتر بنانے اور علاقے میں پائیدار امن لانے کی بھی کلید ہے۔ جب لوگ باعزت طریقے سے روزگار کما سکیں گے، تو وہ غیر قانونی سرگرمیوں سے دور رہیں گے اور ریاست کے ساتھ ان کا اعتماد بحال ہو گا۔ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح، بلوچستان کی سرحدیں بھی تجارت اور خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہیں، بشرطیکہ حکومتی پالیسیاں مقامی ضروریات اور انسانی وقار کا احترام کریں۔

کیا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ اگر ایک پسماندہ خطے کے باسیوں کو روزگار کے قانونی مواقع فراہم کیے جائیں تو اس سے ان کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟


( شکریہ وشکوشیں پروم)

Post a Comment

Previous Post Next Post