نوشکی ( ویب ڈیسک ) مقبوضہ بلوچستان کے علاقہ نوشکی سے تعلق رکھنے والے اسکالر اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے رکن غنی بلوچ کے جبری گمشدگی کو 50 دن مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی سائٹس پر کمپئین چلائی گئی۔
کمپئین دوران این ڈی پی کے رہنماء ایڈووکیٹ شاہ زیب بلوچ نے اپنے پوسٹ میں کہا کہ “غنی بلوچ کے جبری گمشدگی کے خلاف درخواست ہائی کورٹ آف بلوچستان، کوئٹہ اور دوسری درخواست ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت خضدار میں بعنوان چاکیدگی استغاثہ برخلاف ملزمان زیر التواء ہیں لیکن اب تک نہ غنی بلوچ کو بازیاب کرایا گیا ہے اور نہ ہی ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی کو عمل میں لایا گیا ہے”
اسطرح این ڈی پی کے زاہد ارشاد بلوچ نے لکھا کہ “غنی بلوچ کو زندان میں 50 دن مکمل ہو گئے، طالب علمی سے لے کر حال تک اگر آپ نے اس کو دیکھا ہے تو کتابوں کے ساتھ یا پھر بحث مباحثہ کرتے دیکھا ہوگا۔ تجربہ رکھنے والوں کو پتہ ہے کہ اس سے ملاقات سے واپسی پر کوئی سوال، کسی مصنف یا کتاب کا نام ذہن میں ضرور نقش ہوتا۔ “
بلوچ وومن فورم کے سلطانہ بلوچ نے غنی بلوچ سے منسوب کرتے ہوئے پوسٹ میں لکھا کہ “میرا جرم؟ میرا گناہ؟ اور میرا قصور؟، میں ایک ادیب ہوں اور ایک لکھاری ہوں جو اپنے بلوچ قوم کو شعور و آگا ہی دینے کے لئے اپنے پاس کتابیں رکھتا تھا۔ جس کے لئے آج میں اس ظالم ریاست کے زندان میں ہوں۔”
ودود بلوچ نے غنی بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا “کتابیں بانٹنے والا آج خود انصاف کا سوال بن گیا ہے۔” انہوں نے ایک اور پوسٹ میں لکھا کہ “جنہوں نے جنگ نہیں، علم پھیلایا جو بم نہیں، کتابیں لے کر نکلے ان کو قید کیوں؟“
یاد رہے غنی بلوچ کے جبری گمشدگی کے خلاف نوشکی میں ان کے اہلخانہ کی جانب سے احتجاجی ریلیوں سمیت مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیا جاچکا ہے۔ اہلخانہ نے مقامی انتظامیہ کی یقین دہائی کے بعد اپنا احتجاج موخر کیا تھا۔
اہلخانہ کا کہنا ہے غنی بلوچ کے عدم بازیابی کی صورت میں وہ احتجاج کا راستہ اپنانے پر مجبور ہونگے جس میں مرکزی آر سی ڈی شاہراہ پر غیر معینہ مدت تک دھرنا شامل ہوگا۔
غنی بلوچ کو 25 مئی کو کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے خضدار کے مقام پر پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے شناخت کے بعد جبری لاپتہ کردیا تھا۔ وہ ‘زوار کتابجاہ اینڈ پبلشنگ ہاؤس’ کو بھی چلاتے تھے۔