آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) آواران دلجان بلوچ کی بازیابی کیلئے خاندان کی طرف سے احتجاجی دھرنا تیسرے روز جاری ہے ، دلجان بلوچ کو رواں سال 12 جون کو انکے گھر سے پاکستانی فورسز نے انکے والدین کے سامنے غیر قانونی حراست میں لیکر جبری لاپتہ کر دیا تھا -
دھرنا کمیٹی کا کہنا ہے دلجان بلوچ کی بازیابی کیلئے اسکی خاندان والےمسلسل احتجاج کرتے آ رہے ہیں، دلجان بلوچ کی بازیابی کیلئے خاندان نے تین اکتوبر سے چھ اکتوبر تک احتجاجی دھرنا دیا تھا، اس وقت انتظامیہ نے اس یقین دہانی پر دھرنا ختم کرایا تھا کہ دس دن کے اندر اندردلجان کو منظر عام پر لایا جائے گا لیکن ابھی ایک مینے سے اوپر ہو گیا کہ اسے بازیاب نہیں کیا جا رہا ہے اور اپنے تحریری وعدے سے منخرف ہو رہے ہیں، کل رات ضلعی انتظامیہ سے مزاکرات کا ایک سیشن بھی ہوا تھا جس میں فیملیز پہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ احتجاج ختم کریں دلجان کو چھوڑا جائے گا، لکن فیملی کا کہنا ہے کہ جب تک دلجان کو منظر عام پر نہیں لایا جائے گا انکا روڈ بلاک احتجاج جاری رہے گا -
ڈی سی آفس کے سامنے احتجاجی دھرنے کو آج تین روز مکمل ہو گئے ہیں جبکہ دو اور مقامات آواران ٹو کراچی مین روڈ ، اور آواران ٹو کراچی روڈ کو ند گو پوسٹ کے مقام پہ بھی احتجاجاً بلاک کیا ہوا ہے، دلجان کے فیملی نے آواران کے عوام اور ٹرانسپورٹرز سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس تکلیف میں انکا ساتھ دیں -
کمیٹی کا کہنا ہے کہ انتظامیہ دھرنے کے شرکا کو مسلسل حراسان کر رہے ہیں،دوسری جانب احتجاجی دھرنے کیلئے دکانداروں کو دھمکی دی گئی ہے کہ انہیں ٹینٹ اور دیگر سامان مہیا نہ کیجائے، ضلعی انتظامیہ لیویز اور پولیس کی طرف سے انہیں سیکیورٹی فراہم نہیں کی جا رہی ہے بلکہ ایف سی اور ایجنسیوں کے اہلکاروں انہیں دھرنے کے مقام پر آکر مسلسل ہراساں کرکے خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں -
انھوں نے کہاہے کہ احتجاجی دھرنے میں اس وقت لواحقین کے ہمراہ ڈیڑھ سو کے قریب خواتین شامل ہیں، بلوچ وومن فورم کے رہنما اور کارکنان بھی دھرنے میں شریک ہیں۔
دوسری جانب بلوچ وومن فورم شال کے ڈپٹی آرگنائزر سلطانہ بلوچ نے دھرنے کے مقام پر اپنے پیغام میں کہاہے کہ دلجان کے فیملی اور دھرنے کے شرکا کو ریاستی فورسز کی طرف سے مسلسل ہراسان کیا جا رہے، اس وقت بھی ویگو گاڑیوں میں ایجنسیوں کے اہلکار دھرنے کے آس پاس گھوم رہے ہیں، لیویز اور پولیس کے اہلکار سیکیورٹی دینے کے بجائے شرکا کا فلمنگ کرکے چلے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہےکہ اگر احتجاجی دھرنے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی یا تشدد کا استعمال کیا گیا تو لواحقین کے تحفظ اور امن امان کی زمہ دار ریاست ہو گی۔