کوئٹہ ( پ ر ، مانیٹرنگ ڈیسک ) شال بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حالیہ مہم "خاموشی کو توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑا ہونا" کے عنوان سے پورے بلوچستان سمیت کراچی میں منعقد کیا گیا۔ یہ بلوچ عوام بالخصوص بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ردعمل میں تھا۔
انھوں نے کہاہے کہ ایک ماہ میں درجنوں بلوچ طلباء کو کراچی اور سینکڑوں بلوچستان کے دیگر علاقوں سے غیر قانونی طور پر اغوا کیا گیا۔ بعد ازاں حب چوکی، کراچی، تربت اور پنجگور سے اغوا ہونے والوں میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا لیکن اکثریت تاحال لاپتہ ہے اور ان کا کوئی پتہ نہیں۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس مہم کے دوران بھی سیکورٹی فورسز بلوچ افراد کو اغوا اور لاپتہ کرتی رہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا مضبوط ثبوت ہے کہ جبری گمشدگیاں رائج ہیں اور ریاستی پالیسی بلوچ نسل کشی کو دوام بخش رہی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ اس مہم کے تحت، بلوچستان بھر کے لوگ ریلیوں میں شامل ہوئے اور بلوچ لاپتہ افراد کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا۔ ریلیوں میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ شریک ہوئے۔ کراچی، حب چوکی، تربت، پنجگور، خاران، کوئٹہ، نوشکی، دالبندین، یک مچھ، نوکنڈی اور نصیر آباد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ کراچی سے چاغی سے نصیرآباد تک بلوچ قوم نے جبری گمشدگیوں کے خلاف گواہی دی اور آواز بلند کی۔
بی وائی سی ترجمان نے کہاہے کہ ان ریلیوں کو بھی پولیس اور ایجنسیوں نے سبوتاژ کیا جہاں انہیں ہراساں کیا گیا، ڈرایا گیا، لاٹھی چارج کیا گیا اور غیر قانونی طور پر بی وائی سی ممبران اور شرکاء کو گرفتار کیا گیا۔
ترجمان نے کہاہے کہ جبری گمشدگیوں نے بلوچ قوم کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے اور اجتماعی اذیت میں مبتلا کئی لوگوں کی زندگیاں مسخ کر دی ہیں۔ بلوچ قوم اس نسل کشی کے خلاف ہر قیمت پر مزاحمت جاری رکھے گی۔ یہ دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچوں کی جدوجہد کو تسلیم کرے اور انسانی اقدار کو برقرار رکھنے اور پوری آبادی کو نسل کشی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔