جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5567 دن ہو گئے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خضدار سے سیاسی اور سماجی کارکنان در محمد مینگل نزیر احمد جتک اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
علاوہ ازیں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیر مین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہےکہ پاکستانی ظلم و جبر، عالمی اداروں کی خاموشی نے بلوچستان کو انسانی حقوق سے ماورا خطہ بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں قابض پاکستان نے عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی کی انتہا کر دی ہے۔ لیکن عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے دعوے داروں کی بے حسی تاحال قائم ہے۔
انھوں نے کہا ہےکہ پاکستان نے اپنے تمام تر توانائیاں بلوچ نسل کشی پر صرف کر دی ہے جس کا تسلسل تا حال جاری ہے۔
وسیع پیمانے پر بلوچ آبادیوں پر حملوں لاکھوں بلوچوں کو بے گھر کر نے ہزاروں کو اپنے عقوبت خانوں میں جبری بند رکھنے بلوچ سماج کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی جبری اغوا اور ان کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے انسانیت سوز کا روائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
تاکہ بلوچ سر زمین پر اپنا قبضہ مضبوط کرسکیں ۔ اس وقت بلوچستان کے کونے کونے میں فوج ، بلوچ آبادیوں پر حملوں بلوچ فرزندوں کو سر عام جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں مصروف ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ قوم کی جانب سے دنیا کے ہر فورم پر پاکستانی جبر کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے لیکن موجودہ صدی کو انسانی حقوق کی صدی قرار دینے والے عالمی انسانی حقوق کے علمہ داروں کو بلوچستان کی صورت حال نظر نہ آرہی ہے۔ عالمی انسانی حقوق اور میڈیا کی رپورٹس سمیت عالمی ۔
انسانی حقوق کے فورسز پر اُٹھائی جانے والی آوازوں کے بعد بھی اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک کی مجرمانہ خاموشی ان کے کردار کی عکاس ہے۔ اس تشویش ناک صورتحال کے رہتے بلوچستان میں عالمی انسانی حقوق کے دعوے کھوکلے ہو چکے ہیں ۔