کراچی طالب علم بہادر کو رہا نہیں کیاگیا تو احتجاج کا راستہ اپنائیں گے ، طلباء کی پریس کانفرنس



کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ طلباء نے طالب علم بہادر بشیر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کا سب سے زیادہ نشانہ نوجوان اور طلبا بن رہے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ جبری گمشدگیوں کا  سب سے زیادہ نشانہ نوجوان اور طلبا بن رہے ہیں۔ ۔بلوچستان میں ایسے دن کم گزرتے ہیں کہ طالب علموں کو یونیورسٹی میں ہراساں نہ کی جاتی ہو، ہاسٹلوں سے دن دھاڑے سکیورٹی فورسز کے اہلکار طالب علموں کو جبری لاپتہ کرتے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ طلباء کی جبری گمشدگی کا تسلسل جاری ہے، ضلع گوادر کے تحصیل پسنی سے کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے طالب علم بہادر ولد بشیر احمد  کو ترہیس جون دو ہزار چوبیس کو پسنی میں سکیورٹی فورسز نے جبری گمشدہ کر دیا ہے ۔

بہادر بشیر  کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جو عید کی چھٹیوں کے لئے اپنے گھر پسنی آیاتھا۔ چوبیس جون کو بہادر بلوچ کے لواحقین نے پسنی زیرو پوائنٹ پر احتجاج کیا اور مکران کوسٹل ہائی وے بلاک کو کئی گھنٹوں بلاک کیے رکھا، جس کی بعد انتظامیہ کی جانب سے یقین دہائی کرائی گئی کے ایک دن بعد بہادر کو باحفاظت بازیاب کیا جائے گا لیکن چار دن گزرنے کے باجود بہادر بلوچ بازیاب نہ ہو سکے ہیں۔

چھبیس جون بہادر بلوچ کے لواحقین مکران کوسٹل ہائی وے پر دھرنہ دئے بیٹھے ہیں، اُن کے لواحقین  کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا نشانا بنایا گیا ہے اور انھیں مسلسل ہراسا کیا جارہا ہے۔
ہم کراچی کے بلوچ طلباء، بہادر بلوچ کی خاندان سے اظہار یکجہتی کرنے آئے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم بہادر ولد بشیر احمد کو باحفاظت بازیاب کیا جائے، اگر بہادر ولد بشیر احمد کو باحفاظت بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم کراچی کے بلوچ طلباء بہادر بلوچ کے  لواحقین سے مل کر کراچی میں احتجاج شروع کریں گے۔

انھوں نے پریس کانفرنس دوران کہاکہ پاکستان کے آئین اور اقوام متحدہ کے کنونشن میں واضع ہے کہ جبری گمشدگی سے شہریوں کو محفوظ رکھنا ریاست کی زمہ داری ہے،  جبکہ پاکستان کے سپریم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ نے احکامات دئے کہ لوگوں کو جبری گمشدہ نہ کیا جائے بلکہ لوگوں کو گرفتاری کرنے کے لئے قانونی تقاضے پورے کئے جائیں لیکن بلوچستان میں بین لقوامی قانون اور پاکستان کے آئین کی توئین کی جارہی ہیں ۔

طلباء نے کہاکہ بلوچستان میں ایسے بھی کئی واقعات ہوئے ہیں کہ  ایک شخص کئی دفعہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ہمہیں ایسے واقعات بھی ملیں گے کہ جب نوجوان کئی سالوں اور مہینے کیے بعد بازیاب ہوتے ہیں تو نفسیاتی مریض بن چکے ہوتے ہیں اور ایسے کیسز بھی ہیں کہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے  نوجوانوں نے خودکشی کر کے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کردیئے ہیں۔ جن خاندانوں کے عزیز جبری گمشدہ کردئے گئے وہ زہنی ازیت کا شکار ہیں۔
بلوچستان میں ایسی جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے ریاست جبری گمشدگیوں کو ایک ہتیھار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ حالیہ دور میں سی ٹی ڈی جیسے ادارے کے ذریعے جبری گمشدہ بلوچوں کو فیک انکاؤنٹر کے زریعے قتل کیا جارہا ہے ۔ جس کی سبب جبری گمشدہ افراد  کے لواحقین سخت تشویش میں مبتلا ہیں ۔
                               
پریس کانفرنس  میں کہاکہ طالب علموں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا ان کے مستقبل کو برباد کرنا ہے۔ بلوچستان میں ایسے دن کم گزرتے ہیں جب بلوچ طلباء کو ہراسا نہ کیا گیا ہو، بلوچ طلبا مسلسل جبری گمشدہ کئے جارہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی سے جبری گمشدہ طلباء  سہیل اور فصیح اب تک بازیاب نہیں سکے ہیں۔
سہیل اور فصیح کو دو ہزار اکیس میں بلوچستان یونیورسٹی کے احاطہ سے جبری لاپتہ کئے گئے تھے اور  بلوچستان کے تمام طلباء تنظیموں نے احتجاج کا راستہ اپنا کر بلوچستان یونیورسٹی کو کئی مہینوں تک بند رکھا لیکن وہ عقوبت خانوں سے بازیاب نہ ہوسکے۔

انھوں نے کہاکہ راولپنڈی ایگرکلچر یونیورسٹی سے فیروز بلوچ کو دو ہزار بائیس میں جبری لاپتہ کیا گیا جو اب تک   بازیاب نہیں  ہوسکے ہیں ۔

تربت یونیورسٹی سے نعیم رحمت کو دو ہزار بائیس کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اب بھی زندانوں میں مقید ہیں۔ 

انیس بلوچ جو خضدار کا رہاشی ہے اور بہا الدیں زکریا یونیورسٹی سے گریجویٹ کر چکے ہیں، انہیں چار جون کو جبری گمشدہ کیا گیا اور اور ابھی بھی بازیاب نہیں ہوئے ہے۔

انیس بلوچ کو سی ٹی ڈی کے عوالے کرکے باکی بلوچوں کی طرح فیک الزامات لگا گیا ہے جس کی وجہ سے انیس بلوچ کی لواحقین سمت ہم کو ڈر ہے کہ اس کو باکی بلوچوں کی طرح فیک انکاؤنٹر میں مارا نا جائے۔

طلباء نے افسوس کا اظہار کیاکہ بلوچستان میں سینکڑوں طلباء سالوں سے جبری گمشدہ ہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post