کولواہ ادبی میلہ پر ریاستی قدغن ، پروگرام منسوخ کرنا دانشمندانہ عمل نہیں، علمی حلقوں میں تشویش

 


آوران ، کے علاقے گیشکور میں کولواہ تعلیمی میلہ کے نام سے ’ شہید نجمہ کی یاد ‘ میں طے شدہ پروگرام پاکستانی فوج کی ایماء پر منسوخ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر آواران سے اجازت ملنے کے باوجود میلہ کی انعقاد کےو دن (22 جون 2024)  انتظامیہ کے طرف سے اس کے انعقاد سے روکا گیا۔بلوچستان کے علمی و ادبی شخصیات نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 


متحرک و نامور علم دوست شخصیت شبیر رخشانی نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر لکھا ہے ، گیشکور کے چند نوجوان جو کہ جامعہ میں زیر تعلیم ہیں وہ اپنی چھٹیاں گزارنے اپنے علاقے میں آئے ہوئے تھے اور وہ ایک پروگرام بنام کولواہ تعلیمی میلہ منعقد کرنے جا رہے تھے۔ وہ گذشتہ چار ماہ سے اس پروگرام کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ انھوں نے پروگرام کے لیے باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر آواران سے اجازت نامہ بھی حاصل کیا تھا،  لیکن عین پروگرام کے دن یعنی 22 جون 2024 کو انتظامیہ نے بغیر کسی جواز کے پروگرام منسوخ کرایا۔

بلوچ ادیب عابد میر نے بھی اس کی منسوخی پر تنقید کی ہے ، عابد میر کا کہنا ہے آواران میں ظاہر ہے ایسی کوئی سرگرمی سرکاری (بالخصوص اصلی تے وڈی سرکار) کی اجازت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ ان نوجوانوں نے اپنے تئیں وہ اجازت بھی حاصل کی، مگر اس کے باوجود عین میلہ والے دن انھیں سرگرمی کرنے سے روک دیا گیا۔یہ علمی میلہ شہید نجمہ بلوچ کے نام منسوب کیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے یہ وہی اسکول ٹیچر ہے جس نے پچھلے برس ایک سرکاری اہلکار کی مسلسل ہراسمنٹ کے نتیجے میں خودکشی کر لی تھی اور اپنے جھگی نما اسکول کے  بلیک بورڈ پہ ایک سطری دردآمیز آخری تحریر چھوڑی تھی۔

انھوں نے خیال ظاہر کیا ، ممکنہ طور پر اس میلہ پہ سرکار کا اعتراض یہی انتساب ہو سکتا ہے وگرنہ ایک علمی میلہ  سے سرکار کو آخر کیا خطرہ لاحق ہے؟

عابد میر کا مزید کہنا ہے ، حد یہ ہے کہ خیرجان بلوچ جیسا وہاں کا سیاسی نمائندہ بھی اس پہ خاموش ہے۔ انھیں اس پہ نہ صرف بولنا چاہیے بلکہ اپنی سربراہی میں جلد یہ میلہ خود منعقد کروانا چاہیے۔ یہی اس کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ وگرنہ آواران اپنے محسن پہچاننے کی سکت بھی رکھتا ہے اور مخالفین سے نمٹنے کا یارا بھی۔


شبیر رخشانی نے اس بارے میں مزید کہتے ہیں ، اس پروگرام کے منتظمین نوجوان ہیں باہر کی دنیا دیکھ آئے ہیں اور اپنے علاقے کی تعلیمی صورتحال دیکھتے ہوئے ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنا دکھڑا سنائیں ، اپنوں کو بتائیں کہ بچوں کو تعلیم دلائیں۔ مگر انھیں مکالمہ کرنے نہیں دیا گیا۔ منتظمین کو پروگرام سے قبل بلاتے ان سے پروگرام کا ڈرافٹ مانگ لیتے ان سے موضوعات پر تبادلہ خیال کر لیتے جن جن چیزوں پر اعتراضات تھے ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ پروگرام منسوخ کرنا قطعا دانشمندانہ عمل گردانا نہیں جائے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post