بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم ہڑتالی کیمپ کو 5377 دن مکمل

 


بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم ہڑتالی کیمپ کو 5377 دن ہوگئے۔

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پسنی سے سیاسی اور سماجی کارکنان سلمان علی بلوچ سعید سلیمان بلوچ یاسر بلوچ راشد بلوچ ریحان بلوچ اور گارڈن کراچی سے میر حمل بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور  وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہو کرچ کہا کہ لفظ بلوچستان ہونٹوں پہ آتے ہی جذبات احساسات تصورات خیالات ایک جنگی میدان کا منظر لیکر آتی ہیں جہاں ہر طرف آگ کے شعلوں میں انسان جلتے ہوئے نظر آتے ہیں، جہاں بندوق بارود توپ کی گرجدار آوازیں  بلوچوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں  ان آہوں اور سسکیوں میں درد کے ساتھ ساتھ عزم اور پختہ جدوجہد کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے .

انھوں نے کہاکہ بلوچوں کے بکھرتے ہوئے نعشوں میں ماں کی ممتا بہن کی آنچل بلوچ کے جذبات خواہشات ارمان اور خواب بھی ریزہ ریزہ دکھائی دیتے ہیں ، جہاں امن کی علامت فاختہ بھی بلوچوں کے دکھ اور درد میں بارود کی برسات کو دیکھ کر خون کی آنسوؤں بہاتی ہوہی نظر آتی ہیں۔

 ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک جنگ چل رہی ہے اور جنگ ہی کی وجہ سے شہدا بلوچ کے لہو نے دھرتی کو سرمی کر رکھا ہے یہ جنگ امن خو خوشحالی انسانی برابری اور بلوچ کی تہذیب ثقافت اور بقا کا جنگ زدہ بلوچستان میں میڈیا کو حالات کے بارے میں صیح رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔  مخصوص مراعات یافتہ میڈیا صحافیوں کو ریاست کے مرتکب کردہ پالیسی کے مطابق گمراہ کن رپورٹیں شاہع کر کے مراعات سے نوازنا روز کا معمول بن چکا ہے ۔ بلوچستان میں انسانی ضمیر قلم اور الفاظ کے حرمت سکوں کے عوض بیچنے کا کاروبار روز کا معمول بن چکا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post