بلوچ وائس فار جسٹس نے نگران وزیر اعظم پاکستان، انوار الحق کاکڑ کے بیان کو جھوٹ کا پلندہ اور دنیا کو گمراہ کرکے حقائق چھپانے کی ایک واردات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ ایک انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے جبری گمشدگی اور گرفتاریوں میں فرق کرنا چاہیے، بعض اوقات قانونی کاروائی کو جبری گمشدگی کا نام دیا جاتا ہے ان کا یہ بیان مکمل حقائق کے بر خلاف اور انتہائی شرمناک ہے، جس کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے عالمی اداروں سے نام نہاد وزیراعظم کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں گرفتاری نہیں بلکہ جبری گمشدگیوں کے ذریعے لوگوں کو ان کے انسانی و قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔
بیان میں کہا ہے کہ گرفتاری ایک قانونی عمل ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے حکام کسی فرد کو جرم میں ملوث ہونے یا زیر التواء الزامات کی بنیاد پر حراست میں لیتے ہیں۔ یہ عام طور پر کھلے عام کیا جاتا ہے، گرفتار شخص کو ان کی حراست کی وجہ، ان کے قانونی حقوق، اور ان کے خلاف الزامات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ گرفتار افراد کو پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے، اور ان کے ٹھکانے کا علم کا ان کے خاندان اور وکلاء کو ہوتا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ گرفتاری قانون کے دائرہ کار میں کی جاتی ہے، اور پر فرد کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے ریمانڈ لیا جاتا ہے، نام نہاد وزیراعظم بتائیں بلوچستان میں کوئی ایسا کیس ہے کہ ریاستی فورسز اور انٹیلیجنس اداروں نے کسی شخص کو حراست میں لینے کے بعد کسی پولیس اسٹیشن منتقل کئے ہوں، 24 گھنٹوں کے اندر انہیں کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کئے ہوں یا خاندان اور وکلاء کو متعلقہ شخص تک رسائی دی ہو یا الزامات کے بارے میں بتائے ہوں۔ کیونکہ حراست کے بعد متعلقہ شخص کو نامعلوم مقام منتقل کیا جاتا ہے جو جبری گمشدگی کی زمرے میں آتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگی میں ریاستی حکام یا ریاست کی جانب سے کام کرنے والے گروہوں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے کسی شخص کو اغوا یا حراست میں لینا شامل ہے، لیکن یہ خفیہ طور پر یا اعتراف کے بغیر کیا جاتا ہے۔ متاثرہ شخص کی قسمت اور اس کے ٹھکانے کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے، اور حکام اس شخص کے مقام کے بارے اور کسی ملوث جرم کے متعلق معلومات دینے سے انکار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیاں قانونی فریم ورک سے باہر اور بنیادی انسانی حقوق کو روند کر کی جاتی ہے، اکثر فرد کو ختم کرنے یا خاموش کرنے کی نیت سے یہ عمل دہرائی جاتی ہے، سی ٹی ڈی اور انٹیلیجنس ادارے اس ریاستی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر جبری زیر حراست افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرکے پھینک دیتے ہیں، پاکستانی عدالتیں تو ویسے حفیہ ایجنسیز کے زیر اثر ہے لیکن عالمی انسانی اداروں، تنظیموں اور اقوام متحدہ کی خاموشی تعجب خیز ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ جبری گمشدہ فرد کے خاندان کے افراد اور وکلاء کو اکثر اس شخص کے بارے میں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے، جس سے قانونی راہیں تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بلوچ وائس فار جسٹس ترجمان نے کہاہے کہجبری گمشدگی اور گرفتاری میں اہم فرق یہ ہے کہ گرفتاری ایک قانونی عمل ہے جسے قانونی تحفظات کے ساتھ کھلے عام کیا جاتا ہے، جب کہ جبری گمشدگی ایک غیر قانونی اور خفیہ عمل ہے جہاں متاثرہ کی قسمت اور مقام کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے، جو اکثر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنتا ہے لیکن یہ غیر انسانی عمل پاکستان میں دن دھاڑے سرعام دہرائی جاتی ہے اور پاکستان کی نام نہاد وزیراعظم اور وزیر داخلہ اپنی انٹرویو اور تقاریر میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جبری گمشدگی غیر قانونی اور غیر انسانی عمل نہیں بلکہ یہ ریاست کا حق ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں سے محروم رکھے، جبری غائب کرے، 8 ہزار یا 20 ہزار نہیں ایک بھی فرد جبری لاپتہ کیا گیا ہے اس غیر انسانی و غیر قانونی عمل کو کو بھی کوئی شخص جسٹیفائی نہیں کرسکتا لیکن پاکستان کے اعلیٰ عہدوں میں سیلیکٹڈ افراد جبری گمشدگیوں کے غیر انسانی عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے زدعام جواز پیش کرتے ہیں ۔
ترجمان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیاہے کہ وہ پاکستانی حکام کے بیانات کا نوٹس لے کر جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اقدامات اُٹھائیں ۔