ایچ آر سی پی مکران ریجن کی جانب سے "طلباء یونینوں کی بحالی" کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد






تربت: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان مکران چیپٹر کی جانب سے تربت پریس کلب میں بروز اتوار " طلباء یونینوں کی بحالی" کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔


ایچ آر سی پی مکران ریجن کے ڈائریکٹر پروفیسر غنی پرواز نے پاکستان میں طلباء یونین پر پابندی کے حوالے سے تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایوبی دور آمریت میں پاکستان میں 966 طلباء یونینز کام کر رہے تھے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے والے بھی طلباء تھے۔ اس وقت بھی یونینوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی، مگر 1962ء میں آئین کے نفاذ کے بعد پابندی اٹھا لی گئی۔ 1971ء سے 1977ء طلباء یونین کے انتخابات باقاعدگی اور اچھے طریقہ کار کے تحت منعقد ہوتے رہے۔ 


آپ نے کہا کہ یونین انتخابات میں حکومت مخالف طلباء تنظیموں کی کامیابی سے جنرل ضیاء کو اندازہ ہوا کہ طلباء تنظیموں کی موجودگی میں وہ اپنی آمریت اور بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے پورے نہیں کر پائیں گے۔

جنرل ضیاء نے اپنی آمریت کو بچانے کے لیے 9 فروری 1984ء کو طلباء یونین پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ضیاء کے خلاف طلباء اور سیاسی پارٹیوں نے طویل جدوجھد کی، لوگوں کی جدوجھد اور قدرت کی پکڑ نے 1988ء میں ضیاء کو سزا دی 

پروفیسر پرواز نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں طلباء یونین بحال کرنے کا اعلان کیا، اور 1989ء میں مارشل لاء آرڈیننس منسوخ کرکے طلباء یونین کو بحال کر دیا گیاتھا۔


انھوں نے مزید کہا کہ 1990، 1991 اور 1992 کی طلباء تنظیموں میں جھگڑوں کے باعث یونین انتخابات ملتوی ہوتے رہے اور فسادات کی بنیاد پر یونین سازی کو  عدالت میں چیلنج کر دیا گیاتھا۔ بدقسمتی سے 1992 میں سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم نامی جاری کیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت طالب علم سے حلف نامی لیا جائے کہ "سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کرے گا۔" اور بالآخر 1993ء میں سپریم کورٹ نے طلباء یونین پر پابندی عائد کردی۔


پروفیسر غنی پرواز نے آخر میں کہا کہ طلباء یونین کا کردار ںہت اہم ہے، وہ شعور پیدا کرتے ہیں اور اسے پھیلانے ہیں، یہ طلباء یونین سیاست کی نرسریاں ہیں، یہ اپنے معاشرے میں جمہوری ماحول کو فروغ دیتے ہیں۔ 

ایچ آر سی طلباء یونین کی بحالی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔


بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صدام ناز نے کہا کہ ہم طلباء یونین پر پابندی کی بات کرتے ہیں، وہ کونسا اسکول، کالج یا یونیورسٹی ہے جہاں سے بلوچ طلباء کو جبراً گمشدہ نہ کیا گیا ہو، وہ کسی دلیل، منطق یا مباحثہ کو نہیں مانتے۔ آج اگر طلباء یونین پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس کی زمہ دار ہماری سیاسی اشرافیہ ہے۔ طلباء کے جائز حقوق کے حصول کے لیے جدوجھد کرنے کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حقوق کے لیے جدوجھد جاری رکھیں گے۔


بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مصدق بلوچ نے کہا کہ یونین یا آرگنائزیشن یہ اداروں کے اندر کیوں ضروری ہیں؟ اداروں میں طلباء کمی محسوس کریں، اور اس کمی کو پورا کرنے لیے کام کریں۔ ہم 1948ء سے کہی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اپنے تعلیمی اداروں کو اگر دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ موازنہ کریں، تو ہم دیکھیں گے کہ ہمیں کوئی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔ ایک میڈیکل کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ہم بیماری کو پیناڈول سے ریلیف دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 


پروگرام میں ڈاکٹر تاج، شگر اللہںکوچ ، ھمل امین، سجاد امین دشتی، واجہ محمد کریم گچکی، ایڈووکیٹ عبدالمجید دشتی اور ایڈووکیٹ رستم دشتی نے بھی خطاب کیا۔


پروگرام کے اختتام پر سمی بلوچ نے  قرارداد پیش کی۔


پاکستان بھر میں طلبہ یونینوں کو بحال کیا جائے کسی بھی ملک یا معاشرے میں طلبہ یونینوں کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ طلبہ یونینوں کی بدولت عوام و خواص کے شعور میں اضافہ ہوتا ہے نئی قیادتی نصیب ہوتی ہیں جمہوریت قائم ہو کر فروغ پاتی ہے، معیشت ترقی کرتی ہے اور مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے لہذا 24 ستمبر 2023 کے موجودہ پروگرام کے ذریعے  متعلقہ حکام بالا پرزور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان بھر میں جتنی جلدی ہو سکے طلبہ یونینوں کو بحال کیا جائے تاکہ یہ عوام و خواص کے شعور میں اضافہ، نئی قیادتوں کی تشکیل، جمہوریت کے فروغ، معیشت کی ترقی اور مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنا تاریخی کردار ادا کر سکیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post