گزشتہ ماہ 30 جولائی 2025 تربت کے شہید فدا چوک پر بارڈر ایشوز کے حوالے سے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، جس میں بلوچ سیاسی رہنما سید گلزار دوست نے حق دو تحریک بلوچستان کے بانی اور جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمٰن کی تقریر کے دوران کچھ جملوں پر اعتراض کیا۔ انہوں نے مائیک لیکر ردعمل دیا، مگر منتظمین نے ان سے مائیک واپس لے لیا۔ میرے خیال میں یہ واقعہ کسی سازش یا منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک ہنگامی ردعمل تھا جو موقعے کی شدت میں پیش آیا۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ اگلے روز تربت پریس کلب میں دونوں رہنماؤں نے باہمی افہام و تفہیم سے معاملہ نمٹا لیا۔ نہ گلزار دوست نے ذاتی ناراضی کا اظہار کیا، نہ مولانا ہدایت کی طرف سے کوئی تلخی باقی رہی۔ دونوں نے معاملے کو آگے نہ بڑھا کر بالغ نظری کا ثبوت دیا۔
تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ افراد اس معمولی واقعے کو بڑھا چڑھا کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ سید گلزار دوست جیسے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نام کو اپنے ذاتی ایجنڈے کے لیے استعمال نہ کریں۔ بلوچستان پہلے ہی سنگین مسائل سے دوچار ہے تعلیم، صحت، روزگار، جبری گمشدگیاںان پر توجہ دیں، بجائے اس کے کہ وقتی اختلافات کو ہوا دے کر انتشار پیدا کریں۔
جہاں تک مولانا ہدایت الرحمٰن کا صحافیوں کے سوالات پر ردعمل ہے، ایک سیاسی اور دینی رہنما سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شائستگی، بردباری اور فہم و فراست سے جواب دیں۔ بدقسمتی سے، ان کا لہجہ اس معیار پر پورا نہیں اُترا، جو نہ صرف سیاسی شائستگی بلکہ بلوچی روایات کے بھی خلاف تھا۔
یہ بھی واضح ہے کہ بعض افراد، جنہیں نہ مولانا ہدایت سے حقیقی قربت ہے نہ گلزار دوست سے سچی ہمدردی، اس واقعے کو اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایسی سیاست نہ صرف خودغرضی کی عکاس ہے بلکہ قوم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
اگر مولانا ہدایت الرحمٰن واقعی بلوچ سماج میں مثبت سیاسی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یہاں کی حساس سیاسی و سماجی فضا کا ادراک حاصل کرنا ہوگا۔ ایک عالمِ دین اور سیاسی رہنما کے طور پر ان پر ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ شائستگی، وقار، اور رواداری کو فروغ دیں۔
میڈیا اور صحافتی اداروں سے بھی گزارش ہے کہ وہ ایسے معمولی تنازعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بجائے بلوچستان کے اصل مسائل کو اجاگر کریں۔ سستی ریٹنگ کی دوڑ میں معاشرے میں تفرقہ نہ پھیلائیں۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہر سیاسی رہنما سے غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم ماضی کی کوتاہیوں میں الجھے رہے تو قوم آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ آج وقت ہے کہ ہم الزام تراشی چھوڑ کر اتحاد، بھائی چارہ اور اجتماعی مفادات کو ترجیح دیں۔
آخر میں مولانا ہدایت الرحمٰن سے گزارش ہے کہ وہ اپنے منصب کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے آئندہ بھی سیاسی بلوغت اور سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ان کا رویہ ایسا ہونا چاہیے جو معاشرے میں ہم آہنگی، یگانگت اور خیر سگالی کو فروغ دے، نہ کہ نفرت اور تفرقے کو۔