نواب اکبر بگٹی فکرِ مذاحمت کی حتمی دیوار ہے۔ چیئرمین دْرپشان بلوچ



بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی چیئرمین درپشان بلوچ نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کی سترھویں برسی کےموقعے پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچوں کے خلاف ریاستی جابرانہ پالیسیوں کو دیکھ کر نواب صاحب کو اسبات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان بلوچوں کو غلام بناکر انکے وسائل اور اختیار چھین لینا چاہتا ہے، قبضہ گیر کے اسنفسیات کو سمجھتے ہوئے انہوں نے قومی مزاحمت میں حصہ لیکر اپنی شہادت تک اس میں شریک رہے اور تحریک کو ایک راہ و سمت دی اور بلوچ نوجوانوں پر واضح کر دیا کہ پاکستانی فیڈریشن، پارلیمنٹ اور نام نہاد جمہوریت میں بلوچوں کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ اس قبضے کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد ہی حقیقی اور واحد راستہ ہے۔


چیئرمین درپشان بلوچ نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کو بطورایک قبائلی سردار اور قدآور شخصیات کسی بھی چیز کی کمی کا سامنا نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کا احساس ہو چکاتھا کہ بلوچوں کے قومی مفادات پاکستانی قبضے میں نہیں بلکہ اس کے خلاف مزاحمت میں ہے اور نوجوانوں کو اس مزاحمت کی راہ دیکھانے میں ہے، اس لیے انہوں نے پیراںسالی میں پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور جدوجہد کی راہ میںشہادت تک ثابت قدم رہے۔


 نواب بگٹی کی جدوجہد اور شہادت بلوچستان میں نام نہاد پارلیمانی سیاست پر آخری مہرہ ثابت ہوا ، اس کے بعد جنہوں نے بھی پارلیمانی سیاست کی راہ لیے انہوں نے قومی جدوجہد اور بلوچوں کے خلاف ریاستی جبرمیں باقاعدہ طور پر حصہ لیا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کیلئےقومی مفادات کا سودا لگایا ہے اور بلوچوں کے وسائل سوداکرنے سے بلوچ سیاسی کارکنان کی گرفتاری اور مسخ شدہ نعش پھینکنے میں بطور معاون کردار ادا کیا ہے۔ 


آزادی کی جدوجہد میں سیاسی واقعات کا ہمیشہ سے ایک اہم کردار رہاہے جس کی بدولت تحریک کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، بلوچ قومی تحریک میں شہید نواب کی شہادت کو وہی عظیم مقام حاصل ہے جب بلوچ قوم کی ان کی غلام حیثیت کا احساس دیاگیا۔ نواب صاحب نے قومی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوکرنا صرف نوجوانوں بلکہ بلوچ قوم کے تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو حقیقی راہ کی نشاندہی کرائی اور انہو ں نے واضح کر دیا کہ قومی جدوجہد اور آزادی کے بغیر بلوچوں کیلئے کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ قومی جدوجہد اورآزادی کے بغیر بلوچوں کیلئے قومی غلامی رہ جاتا ہے جو نواب صاحب کو قبول نہیں تھا اس لیے انہوں نے تحریک میں حصہ لینے کو اہمیت دی۔


بیان کے آخر میں چیئرمین درپشان بلوچ نے کہا کہ آج یہ بات نظریاتی طور پر مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نواب صاحب نے پیران سالی میں اس راہ کا چناؤ کیوں کیا؟یقینا نواب صاحب قومی غلامی کے اثرات اور تجربات سےواقف ہو چکے تھے اور وہ آنے والے نسلوں کو اس سے نکالناچاہتے تھے اور آج ہمیں بطور قوم جن مسائل اور مشکلات کاسامنا ہے یقینا یہ قومی غلامی کی دین ہیں اس لیے بلوچوں کوچاہیے کہ وہ اس غلامی کے خلاف نواب صاحب کے فلسفے پرعمل کرتے ہوئے جدوجہد میں حصہ لیکر اپنی اپنی زمہ داریوں کو سرانجام دینے کی کوشش کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post