شال پریس کلب میں کسان امداد جو یا کی بیٹی ارباب جو یا اور دیگر لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زمین ریونیو کارڈ کے مطابق موضع کرمانی میں بابا کے نام پر ہیں جو کہ 2017 سے پہلے ہماری زمین جھل مگسی کے نوابوں کے ایما پر ان کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے راہیجہ مگسی قابض ہو چکے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ افسران اسٹنٹ کمشنرڈ پٹی کمشنر جھل مگسی سے متعدد بار ملے قبضہ چھڑانے کے لیے درخواستیں دیں، 30 نومبر 2017 میں ہمیں زمین کا قبضہ واپس ملا۔ لیکن قبضہ مافیا کو زمین سے اٹھایا نہیں گیا۔ اس ضمن میں ہم نے افسران اسٹنٹ کمشنر ڈپٹی کمشنر، جھل مگسی سے متعدد بار ملے ۔ قبضہ چھڑانے کیلئے درخواستیں دیں۔ احتجاج کرتے رہے لیکن ہماری داوری نہ ہوسکی تو ہم مجبور ہو کر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تین ماہ تک بیٹھے رہے مگر وہاں پر بھی کسی ذمہ دار شخص نے ملنے کی زحمت نہ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ سلطنت جھل مگسی میں نوابوں نے اپنا ہی ریاست قائم کر رکھا ہے وہاں غریبوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کراتے ہیں کسانوں سے ناجائز بٹائی کے نام پر بھتہ لیتے ہیں جو دینے سے انکار کرے اسے قتل کروایا جاتا ہے اور باعث افسوس یہ ہے کہ ان تمام غیر قانونی عمل کی تکمیل کیلئے ان کے غنڈے اور وہاں کی ضلعی انتظامیہ نوابوں کی سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہیں
۔
انھوں نے کہاکہ اسلام آباد کے بعد کمشنر نصیر آباد کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کی شکل میں رونا روتے رہے ہیں لیکن ریاستی اداروں میں سے کسی نے ہماری مدد نہیں کی ۔ہم مجبور ہو کر جب اپنے زمینوں پر جا بیٹھے تو ہمیں بے دخل کرنے کے لیے آئے روز مسلح افراد حملے کرتے رہے ۔ضلعی انتظامیہ ہمیں تحفظ دینے میں بھی مکمل ناکام رہی ایک حملے میں میری بہن خیر النسا بھی شدید زخمی ہوئی تھی جو اب تک زیر اعلاج ہے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ہمارے گھر پر نواب خالد خان مگسی نوابزادہ طارق خان مگسی کے ایما پر 4 اگست 2023 کو علی گل ولد فقیر محمد، ہزار خان ولد علی گل سلیم، ہدایت اللہ دین محمد ولد حمد نواز قوم را ہیجہ مگسی، جہان خان قوم بگٹی بختیار ولد بالاچ خان و دیگر تین نے مسلح حملہ کر کے میرے بابا امداد فقیر جو یہ کوقتل کر دیا۔
پریس کانفر نس میں ان کا کہنا تھا ظلم نا انصافی یہاں ختم نہیں ہوتی جب ہم اپنے بابا کی نعش لے کر نصیر آباد ریجن کے ڈویژن ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی کی جانب پر امن احتجاج کرنے آئے تو ہمیں روکا گیا ۔ انھوں نے کہاکہ احتجاج کا حق استعمال کرنے کے لیے نکلے تو ہمیں ڈپٹی کمشنر جھل مگسی ڈیرہ مراد جمالی جانے سے روک دیا اور پولیس کر نڈی میں ہمیں نعش سمیت سیف آباد جو کہ پر خطر اور کچہ راستہ ہے اس کے ذریعے نعش اوستہ محمد بھجوایا گیا ، جہاں دو گھنٹے کا سفر ہے وہاں 8 گھنٹے کا سفر بن جاتا ہے، جب ایک بار پھر ہم اوستہ محمدسے بابا کی میت لے کر اگلی صبح احتجاج کیلئے ڈیرہ مراد جمالی کا رخ کیا تو نہ صرف جعفر آباد پولیس ہمیں ڈیرہ مراد جمالی کے جانب رو کنے کے لیے کشتی سے بالان شاخ کے مقام پر روکا بلکہ ڈپٹی کمشنر ایس ایس پی جعفر آباد بذات خود موجود تھے ، پوچھنے پر پتہ چلا کہ انھیں بالا افسران کی جانب سے احکامات ملے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر تھا کہ وہ ایسی کونسی قوت تھی جوڈیرہ مراد جمالی کوجانے والی تمام روٹس ہمارے لئے بند کر دیے گئے تھے۔ اور ہمارے بابا کے نعش کی بے حرمتی کی گئی ، ہم سب پر ایس ایچ اوسٹی ڈیرہ اللہ یارکی سربراہی میں لاٹھی چارج کی گئی نہ ہی میت کی حرمت کا خیال رکھا گیا نہ ہی خواتین کی عزت و آبرو کا خیال رکھا گیا ۔
انھوں نے الزام عائد کیاکہ جھل مگسی کے سابق ایم این اے نواب خالد خان مگسی ایم پی اے طارق نے میرے بابا کو قتل کرنے بعد خاندان کو نعش لیکر احتجاج کا حق نہیں دیا ، ڈویژن بھر کو انھوں نے یر غمال بنا رکھا تو ہم جیسے مظلوم و محکوم طبقہ کس سے انصاف کی امید رکھیں ۔
انھوں نے سوال کیاکہ کیا ریاست حقیقی ماں ہونے کا حق ادا کر رہی ہے؟ 22 دن ہو گئے درج بالا نام جو بابا کے قتل کیس میں نامزد کئے جاچکے ہیں انھیں آج تک گرفتار نہ کیا جاسکا اور نہ ہی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہے۔لہذا چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس ہائی کورٹ آف بلوچستان اس ظلم و بربریت کا نوٹس لیں۔مجھے اور میرے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کریں اور میری بابا کے قتل کی کیس سیشن کورٹ گندہ واہ سے کوئٹہ ٹرانسفر کریں اور میں نگران وزیر اعظم پاکستان نگران وزیراعلی بلوچستان ڈی جی لیویز سے پرزور اپیل کرتی ہوں کہ قاتلوں کی گرفتاری کیلئے سخت احکامات صادر فرما ئیں۔