بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کیلے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5152 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خاران سے سیاسی اور سماجی کارکنان سعداللہ بلوچ خیر محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن 2002 سے تاحال جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچ فرزند پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری آغوا ہوکر ریاستی ٹارچر سیلوں میں مختلف اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ اور اس دوران ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو ماورائے آئین شہید کیا گیا ہے۔ جن کی تشدد زدہ نعشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ توتک میں سینکڑوں لاپتہ افراد کی اجتماعی قبروں میں سے کئی لاپتہ بلوچوں کی نعشیں برآمد ہو ئیں جو قابض کی وحشیانہ فطرت کا منہ بولتا ثبوط ہے۔ ریاست پاکستان اپنی قائم کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے بلوچ قوم پر آزما رہی ہے تاکہ بلوچ قوم کو زیر کر کے بلوچ قوم کی نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار جاری رکھ سکے۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ قوم نے من حیث القوم اپنی بیشتر زندگی قبضہ گیریت اور محکومیت کے خلاف لڑ کر گزار رہی ہے آج پاکستان سے بھی پرامن جدجہد میں مصروف عمل ہے، اور شہدا کے پاک لہو کے بدولت دنیا کی توجہ اپنی طرف مبزول کر چکا ہے اور انسانیت کے دعویداروں کو پیغام دے رہا ہے کہ بلوچ مر سکتا ہے۔ مگر زندہ رہتے ہوئے انسانیت کے دشمنوں کو اپنے پاس نہیں چھوڑتا۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عالمی اداروں اور مذہب دنیا سے توقعات ایک طرف لیکن سب سے پہلے بلوچ کو خود یہ جاننا پڑے گا کہ اجتماعی قبروں کی دریافت ہو یا روزانہ کہیں نہ کہیں کسی بلوچ فرزند کی مسخ شدہ نعش کا ملنا ہو بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا چادر چاردیواری کی روزانہ کی بنیاد پر بے حرمتی ہو یا ہمارے جگر گوشوں کی فورسز کے ہاتھوں جبری اغوا ان سب کا بنیاد صرف یہ ہے کہ بلوچ مظلوم محکوم قوم ہے یہ سب کچھ قابض حکومت کر رہا ہے۔ حکومت فوج اور خفیہ اداروں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی نعشیں اٹھاتے ہیں تو انھیں کتنی تکلیف ہوگی ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچ عزت، ننگ ناموس زمین و ملکیت کیلے جان کی پرواہ نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کی فوج بلوچستان میں صرف لوٹ مار کی خاطر آئی ہے ۔