بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5129 دن ہوگئے۔
آج اظہاریکجہتی کرنے والوں میں شال سے سیاسی اور سماجی کارکنان سلطان بلوچ، ثناء بلوچ اور داود بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئندہ انتخابات کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ قابض ریاست اپنی ظلم و بربریت میں مزید شدت لا چکا ہے ۔
انھوں نے کہاکہ الیکشن کی راہ ہموار کرنے کےلیے قابض ریاست نے پورے بلوچستان کو بارود کا ڈھیر بنادیا ہے۔ پر امن جدوجہد سے سرشار بلوچوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی ایک ناکام کوشش کے ذریعے حالیہ دنوں پاکستانی فوج نے گن شپ ہیلی کاپٹرز، جنگی جہاز اور ٹینکوں کے ذریعے بلوچوں کے گھروں کو زمین بوس کرکے خونی آپریشن کے دائرے کو مشکے سے وسعت دیکر تمپ، مند، پنجگور اور خاران کے مختلف علاقوں تک وسیع کر دیا ہے اور جبری گمشدگیوں اور حراستی قتل میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔
انھوں نے کہاکہ قابض فوج نے اپنی فرعونیت کو بلوچستان میں قائم رکھنے کے لیے ہزاروں بلوچوں کوجبری گمشدہ گی کا شکار بنا چکی ہے۔ ملٹری آپریشن کے ذریعے آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیاہے۔ لاکھوں بلوچوں کو اپنے ہی مادر وطن سے بے دخل کرنے اور ایک مہاجر کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو اغیار کے زیر تسلط سے دائمی طور پر چھٹکارہ دلانا چاہتے تھے۔ مگر اس پورے ظلم و بربریت کے دور میں اسلام آباد کی سلامتی کے لیے دعا گو قوم پرست خاموشی کے عوض اپنی مٹھیاں گرم کرتے رہے قومی تحریک کے دوست لاپتہ ہوتے رہے، یکے بعد دیگر ہماری ماوں کی گود اجڑتی رہی، گھروں کے چراغ بجھتے رہے۔
انھوں نے کہاکہ یاد رکھا جائے ہزاروں بلوچ فرزندوں، ماوں بہنوں کی ہزاروں قربانیوں کے بعد فتح صرف اور صرف لواحقین کی ہوگی۔ لواحقین کے ریلیوں، مظاہروں اور پریس کانفرنسز نے قابض ریاست اور اس کے حواریوں کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ تمام تر ریاستی بربریت کے باوجود بلوچ قوم کے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں.