کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5085 دن ہوگئے ہیں۔

 


کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5085 دن ہوگئے ہیں، آج کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے والوں میں نوشکی سے سیاسی اور سماجی کارکنان فیض امیر بلوچ میر محمد بلوچ نذیر احمد بلوچ نے آکر اظہار یکجہتی کی، وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی خفیہ اداروں ایف سی اور دیگر ایجنسیوں پیرا ملٹری فورسز کے مظالم سے ہر ذی شعور انسان آگاہ ہے، کس طرح مسلمانیت کے لبادے میں چپھے پاکستانی فورسز آئے روز بلوچ نو جوانوں بزرگوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کے زریعے انسانیت کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔ مظالم کی ایسی دستانیں کہ انسانیت کانپ جاتی ہیں تاریخ عالم پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو پُر امن جدوجہد میں نشیب فراز کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے  اپنی منزل کو پہنچ چکی ہیں۔ یا وہ سفر میں جاری ہیں یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تشدد اور پرامن جدجہد لازل وملزوم ہیں۔ نواباد کار نو ابادیاتی نظام یا قبضہ گیر کے لئے اپنی نظام اور قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے تشدد لازمی جُز ہے عین اسے طرح شعور ذات کو بیدار کرنے میں پُرامن جدجہد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تشدد محض غیض و غضب نہیں ہے نہ وہشی حبتوں کا اظہار ہے نہ ہی یہ احتجاج ہے بلکہ پُرامن جدجہد میں وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان خد کو تخلیق کررہا ہے۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ پُرامن جدجہد یہ تشدیں بالکل انوکھی اور غیر متوقعہ نہیں ہیں اگر ہم ذیادہ دور نہ جائیں اسی قابض ریاست کا جائزہ لیں جو پاکستانیوں نے بنگالیوں کی ساتھ کیا تو کچھ قبضہ گیر کی شکل واضع ہو جائیگی بلگلہ دیش کے لیڈروں نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج انسان نہیں۔ آپ اس بات پر غور کریں کہ انہوں نے دو سال کے بچے کو بھی زندہ نہیں چوڑا خواتیں کی بھی جان لی میں سمجھاں ہوں کہ انکی سینے میں دل نہیں اسی طوح بلوچوں کے جھوپڑیوں کو کیسے جلایا پاکستانی حکمران یہ سجھتی ہے کہ ہر بلوچ سرمچقروں کا پیروکار ہے اور ہر سخص کو ختم کر دینا چاہئے۔ دیہاتوں میں بلوچون کو مارا گیا۔ جن کو جنگ کے بارے میں پتہ ہی نہیں۔ اُن ظالم پاکستانی مسلمان خواتین کو ان کے والدین کے سامنے خودکشی پر مجبور کیا۔ اور کچھ اپنی عزت کی خاطر چُپ ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post