مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر بی این ایم کی جانب سے آنلائن تقریب و مشاعرہ کا اہتمام کیاگیا



شال: مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک آنلائن  تقریب میں بلوچ نیشنل موومنٹ  بی این ایم کے مرکزی ذمہ داران نے شرکت کرتے ہوئے زبان کی اہمیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے علاوہ مشاعرہ کا اہتمام کیا۔ 


بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری ثقافت و اطلاعات قاضی داد محمد ریحان نے پروگرام کے پہلے حصے میں زبان کی ترقی میں ادب کے کردار پر  بلوچ قوم دوست رہنماء و ادیب شیرمحمد مری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شیرمحمد مری نے کہا تھا کہ اقوام کی روح ادب ہے اور زبان اپنے وسیع سینے سے ادب کو جنم دیتی ہے۔


انھوں نے کہا کہ اگر کسی بھی قوم کا ادب اس کی روح کہلائی جاسکتی ہے تو اس ادب کو جنم دینے والے ادیبوں کا بھی قوم میں ایک اعلی مقام ہے۔ہمارے ادیبوں کو اس مقام کی قدر کرنی ہوگی اور اپنے منصب کا لاج رکھتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کرنا چاہیے ، جو بلوچ قوم کی زبانوں کی ترقی کا باعث ہو ، قومی اقدار کی عکاسی کرئے اور ہماری ثقافت و زبان کو نئی نسل تک اصل حالت میں پہنچائے۔


انھوں نے کہا کہ ہم اکثر طالب علموں کو کہتے ہیں کہ اگر وہ بلوچی کی ہزاروں کتابیں نہیں پڑھ سکتے تو چند بنیادیں کتابیں اور بلوچی کلاسیک ادب کو لازمی پڑھیں۔جن شعراء کو ہمیں پڑھنا چاہیے ان میں انور صاحب خان بھی شامل ہے ، جنھوں نے بلوچی زبان کے ایک ایسے ذخیرہ الفاظ کو اپنے اشعار میں برتا جو اب متروک ہوچکے ہیں۔ ہم ان کے اشعار کے ذریعے ان الفاظوں کی کھوج کرسکتے ہیں،کیونکہ الفاظ محض آواز اور لکیروں کے مجموعے کا نام نہیں ، بلکہ ہر لفظ کے پس منظر میں ایک کہانی اور تاریخ ہوتی ہے۔


قاضی ریحان نے کہاکہ ہمارے نامور ادیبوں نے بلوچی زبان کا جو ادب تخلیق کیا ہے ، وہ ہمیں اپنے آپ سے آشنا کرتا ہے۔


انھوں نے کہاکہ بلوچی وسیع و عریض سرزمین کی زبان میں ایک حیرت انگیز خوبی ہے کہ اگر آپ جام درک کو پڑھیں، شئے شولان ، مست توکلی ، ملافاضل کو یا ہمارے عہد میں انور صاحب خان کو سب کے لب و لہجے، الفاظ و تراکیب ، تشبیہات و استعارے اور صنف شاعری میں یکسانیت نظر آتی ہے، ایسا لگتا ہے سب ایک ہی چشمے سے پھوٹی ندیاں ہیں۔


انھوں نے کہاکہ بلوچی کلاسیک شاعری آج کی شاعری سے منفرد تھی ۔ بلوچ شعراء قافیہ پیمائی کی بجائے خیال آرائی پر زور دیتے تھے، ان کی نظموں میں قافیہ اور ردیف نہیں ہوتا تھا اور نہی  عربی کے بحر استعمال کرتے تھے، بلکہ وہ ایک خاص ترکیب و ردھم کے ساتھ شاعری کرتی تھے جو بلوچی شاعری کی منفرد شناخت ہے۔


انھوں نے کہاکہ مست توکلی میرے پسندیدہ شاعر ہیں جب بھی ان کے کلام پڑھتا ہوں ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہمارے ارد گرد گھوم رہے ہیں ، وہ چلتے جا رہے ہیں اور اپنی سمو کے لیے خوش آہنگ گیت گا رہے ہیں۔ وہ سب مناظر جو انھوں نے اپنے اشعار میں بیان کیے ہیں نظروں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں۔انھوں نے اپنے عہد کی زبان کواور اپنے عہد کے ہر رنگ کو ہمارے لیے محفوظ کیا۔


انھوں نے پروگرام کے دوران جام درک ، مست توکلی اور انور صاحب خان کے اشعار پڑھ کر سنائے۔


کمال بلوچ نے مادری زبانوں کے عالمی دن کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ بنگلہ دیش کے طالب علموں نے اپنی مادری زبان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جس کی بدولت آج دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔


انھوں نے کہاکہ 1948 میں پاکستان نے جب اردو زبان کو بنگلہ دیش پر مسلط کرنا چاہا تو بنگلہ دیش کے طالب علموں نے اپنی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کا  درجہ دلوانے کے لیے ’ بھاشا آندولن‘ چلایا۔21 فروری 1952 کو پولس نے بھاشا آندولن کی ایک ریلی پر گولیاں چلائیں جس سے پانچ طالب علم عبدالسلام، ابو برکت، رفیق الدین احمد، عبدالجبار اور شفیع الرحمان شہید ہوئے جبکہ دیگر سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔


انھوں نے کہا کہ آج ان بنگالی طالب علموں کی قربانیوں کی بدولت ہم مادری زبانوں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔اس قربانی کی بدولت دنیا نے مادری زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔


اس پروگرام کی نظامت کے فرائض بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری ثقافت و اطلاعات قاضی داد محمد ریحان اور زرمبش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور مرکزی کمیٹی کے ممبر حنیف بلوچ نے انجام دیئے۔ جبکہ بی این ایم کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ نے اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور سینٹرل کمیٹی کے ممبر حاتم بلوچ نے اس موقع کی مناسبت سے اپنا مقالہ پیش کیا جبکہ پروگرام میں دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود بلوچ شعراء نے اپنے اشعار بھی پیش کئے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post