خاران: محمد نور مسکانزئی کیس میں جبراً زیر حراست افراد میں سے تین بازیاب

 


خاران :  خاران سے کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ  سی ٹی ڈی و پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبراً حراست میں لیے گئے  دو بھائی جعفر بادینی اور یوسف بادینی سمیت اللہ نور ولد حسن نور شامل ہیں جبکہ دیگر نوجوان تاحال زیر حراست ہیں۔


تفصیلات کے مطابق سابق چیف جسٹس بوچستان ہائی کورٹ محمد نور مسکانزئی کی ہلاکت کے کیس میں خاران سے گزشتہ ماہ مختلف اوقات میں متعدد نوجوان پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اغواء ہوئے تھے۔ ان میں شامل تین بھائی جعفر بادینی، یوسف بادینی اور پرویز بادینی بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ فورسز نے خاران سے ایک اور نوجوان اللہ نور ولد حسن نور جبکہ کوئٹہ سے جعفر اور یوسف کے کزن نوید بادینی کو بھی حراست میں لیا تھا۔ آج جعفر بادینی، یوسف بادینی اور اللہ نور بازیاب ہوگئے جبکہ باقی افراد تاحال زیر حراست ہیں۔


آپ کو علم ہے  اسی دوران یلانزئی فیملی سے عجاب یلانزئی اور شفقت یلانزئی بھی مختلف اوقات میں اغواء ہوئے، جنہیں سی ٹی ڈی نے باقاعدہ محمد نور مسکانزئی کیس میں مرکزئی ملزم قرار دیا ہے۔ فورسز کی جانب سے عجاب یلانزئی کے گھر پر متعدد چھاپوں اور بھائی کی گمشدگی سے تنگ آکر عجاب کے بڑے بھائی لطف اللہ یلانزئی نے اہلیہ سمیت خودکشی کی تھی۔ عجاب یلانزئی اور شفقت یلانزئی تاحال حراست میں ہیں۔


آپ یہ بھی جانتے ہیں  کہ خاران میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ 14 اکتوبر کو سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی بی ایل اے کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے شروع ہوا۔ محمد نور مسکانزئی کی ہلاکت کے بعد ایف سی، ایم آئی، آئی ایس آئی، پولیس اور سی ٹی ڈی کی شراکت داری سے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی سی ٹی ڈی بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل کررہے تھے۔


مذکورہ جے آئی ٹی نے کیس کی خانہ پری کیلئے سی ٹی ڈی ہے ہاتھوں چار لاپتہ نوجوانوں کو فیک انکاؤنٹر میں قتل کروایا اور بعد میں یکے بعد دیگرے متعدد نوجوانوں کو لاپتہ کیا، جن میں شامل شفقت یلانزئی کو منظر عام پر لاکر اسے محمد نور مسکانزئی کا قاتل بتایا گیا۔


اس کے فورا بعد بی ایل اے نے سی ٹی ڈی کے  اس دعوے کی تردید کی تھی۔ ترجمان آزاد بلوچ نے بتایا کہ خاران میں چند روز قبل جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ایک نوجوان کو محمد نور مسکانزئی کی ہلاکت کا ذمہ دار ظاہر کرنا جھوٹ کا پلندہ ہے جس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں ہے۔ شفقت یلانزئی نامی نوجوان اور اس کے ہمراہ لاپتہ ہونے والے دیگر افراد کا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post