بلوچ قوم کے لیے اتحاد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا وقت ان حالات میں اِختلافات عدم برداشت ہیروازم شخصیت پرستی کی کوہی گنجائش نہیں۔ ماما قدیر

 


شال :  بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4874 دن ہوگئے ہیں ۔


اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ ایم جے بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


 بلوچ وائس فار مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ نومبر کے مہینے کا آغاز برائے انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اجلاس میں ہوا۔


  پاکستان بلوچستان میں مارو پھینکو کی پالیسی رو کے جو یکم نومبر کے سوشل میڈیا کی شہ سرخی تھی اگر مختصر جائزہ لیا جائے تو آج بلوچ تمام نشیب و فراز باہمی دوریوں کے باوجود عالمی دنیا میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے یقینا شہدا کے لہو جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی پرامن جدوجہد کا ثمر ہے ۔


ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ آج جب بلوچ پاکستان کی درو دیواروں کو چیرتی ہوہی عالمی دنیا اور دیگر اقوام کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے تو دوسری جانب داِِِخلی طور پر آج بھی ایسا لگتا ہے دوریاں اعتماد کا فقدان بے یقینی کے شکار ہیں ہم نومبر کابینہ خاص کر اس کی جاگتی ثبوت ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ  ریاستی ِخفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا کے بعد شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے پھر انسانی حقوق کے علمبردار عالمی تنظیمیں گہری نیند میں ہیں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے اگر کوہی مقامی مخبر مارا جائے تو ایسے بے گناہ پیش نہ کرسکے جبری اغوا کے میں یہی مقامی دلال جو صرف چند رویوں کی لالچ یا ڈیتھ اسکواڈ کے ورغلانے پر یہ سب کرتے جب انھیں نشان عبرت بناتے ہیں تو بے گناہی کا رونا شروع ہوتا ہے ۔


ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم آج حالت جنگ میں ہے نازک مرحلے سے گزر رہی ہے بلوچ نوجوانوں کی مسِ شدہ لاشیں گرانا ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ لواحقین کے گھروں پر حملے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں بیٹھے لواحقین کو ڈرانا دھمکانا روز کا معمول بن چکے ہیں 

بلوچ قوم کے لیے اتحاد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا وقت ان حالات میں اِختلافات عدم برداشت ہیروازم شخصیت پرستی کی کوہی گنجائش نہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post