کراچی انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جانب سے "سیلابی بحران سندھ کے نام " پر ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جانب سے "سیلابی بحران سندھ کے نام " پر ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا جہاں فیصل ایدھی، قاضی خضر سمیت مختلف اداروں کے نمائندگان سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی آرگنائزر آمنہ بلوچ اور ڈپٹی آرگنائزر وہاب بلوچ نے بھی شرکت کی۔ آمنہ بلوچ نے اپنی خطاب میں کہا کہ بلوچستان اگر ہماری ماں دھرتی ہے تو سندھ بھی ہماری ماں کی گود ہے ، جس نے ہمیں بانہوں میں ایسے سمیٹا ہے جیسے ایک ماں سمیٹتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ سیلاب کا پہلا طوفان بلوچستان میں آیا لیکن تب تمام لوگ گہری نیند میں سو رہے تھے۔ جب بی وائی سی (کراچی) چیخ رہی تھی کہ لسبیلہ ڈوب گیا ہے مگر کسی کو کوئی غم نہیں تھا ۔ انھوں نے کہاکہ وانگ آرگنائزیشن کے بعد بلو یکجہتی کمیٹی (کراچی) وہ پہلا ادارہ تھا ،جس نے نہ فقط بیلہ اور لسبیلہ میں سیلابی تباہ کاریوں کی نشاندہی کی بلکہ راشن اور ٹینٹ کی پہلی کھیپ بھی بھیجی۔ انھوں نے کہاکہ بلوچستان کا زراعت کا شعبہ بھی ڈوب گیا ہے۔ اور ان علاقوں میں راشن سمیت ٹینٹ، مچھر دانی، موسپیل اور ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے۔ آمنہ نے مزید کہا کہ ہمیں حیرت ہے ڈاکٹر جنہیں مسیحا کہا جاتا ہے وہ اس مشکل وقت میں خود آگے نہیں آئے، حالانکہ سب سے زیادہ ان علاقوں میں ڈاکٹروں کی ضرورت تھی۔ قاضی خضر نے اس دوران کہا کہ جہاں اندرون سندھ اور بلوچستان متاثر ہیں وہیں کراچی کی بھی معاشی صورتحال بہتر نہیں۔ انھوں نے کہاکہ کراچی میں مزدور طبقہ اور بلخصوص کولی جو ریلوے بند ہونے کی صورت میں معاشی طور پر بہت متاثر ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بہت سی فیملیز فاقوں کا شکار ہیں ۔ سیشن میں دیگر شرکا نے بھی سندھ اور بلوچستان کے سیلاب کے باعث بگڑتے حالات اور صورتحال پر طویل گفتگو اور آئندہ لاح عمل پر بھی بحث کی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post