دیمک دیکھنے میں انتاہی نازک چھوٹا اور بے ضرر کیڑا دکھتا ہے، مگر وہ حقیقت میں انتہائی خطرناک حشرات میں سے ایک ہے۔ اور اس کے حملے کا نشانہ اکثر وہی فرنیچر،پارٹی تنظیمیں ، بنتے ہیں، جو مکمل پکے نہیں ہوتے ۔
لکڑ ہاروں کا کہنا ہے کہ ہر لکڑی کی ایک وقت اور پکنے کی مدت ہوتی ہے، اگر اس وقت کاٹ کر اس لکڑی کو کوئی بھی قیمتی چیز بنائیں اس پر دیمک کبھی بھی وار نہیں کرسکتا۔
ٹھیک اسی طرح اگر ہم دیمکوں کو زندگی کے روزمرہ کاموں ،پروگراموں ،سیاسی سماجی تنظیموں،سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں جانچتے تو ،دیمک کی گھس جانے سے وہ پروگرام وڑ نہیں جاتا ۔
اگر یہ دیمکیں کسی سیاسی پارٹی حکومت ،تنظیم چاہئے پارلیمانی غیر پارلیمانی ،مسلح یا غیر مسلح تنظیم میں گھس جائیں اور اوپری سطح پر پہنچ جائیں تو اس کا مطلب وہ پارٹی تنظیمیں پختہ نہیں تھے ، یہی وجہ ہے سیاسی دیمک ان میں گھس کر اپنی پوزیشن سنبھال گئے ہیں ۔ اور اب اس تنظیم پارٹی کا حال وہی کریں گے جو چکی میں غلہ ،گھیہوں اور دوسری جانب لکڑی کے انتہائی قیمتی فرنیچر کا ہوجاتاہے۔
سیاسی دیمکوں کا اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہ جب کسی سیاسی انقلابی حتی کہ وہ آزادی پسند پارٹی تنظیمیں کیوں نہ ہوں، اگر ان کی ناپختگی کی وجہ سے اندر گھس گئے ہیں، تو وہ تنظیمیں پارٹیاں، محنت کش کارکنان لیڈر، تحریکیں، ملک، ڈوب گئے ہیں ،اگر کوئی قوم بدقسمتی سے کسی بدتہذیب پاکستان جیسے قابض کا غلام بن گیا ہے تو ،سیاسی دیمک آزادی کے نام پر سیاسی پارٹیوں اور عوام کے اندر آسانی سے گھس کر اس تحریک کا ستیا ناس کرکے رکھ دیئے ہیں ، مگر دیمکوں کے صحت پر کوئی منفی فرق نہیں پڑا ہے،کیوں کہ ان کے پاس کھونے کیلے کچھ نہیں ہوتھا،اگر کہیں ایک دفعہ گھر کر گئے تو پھل پھول کر جگہ کر جاتے ہیں ، اور وہ ہمیشہ تروتازہ رہتے ہیں ،کیوں کہ وہ ایک تنظیم ، پارٹی کو ختم کرنے کے بعد دوسرے ،دوسرے کے بعد تیسرے، حتی کہ اپنے تنظیمی ساتھیوں کو بھی کھوکھلا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اگر آپ دیمکوں سے سے پوچھیں کہ آپ نے کیوں جھوٹا نعرہ دیاتھا کہ نواب سردار ،وڈیروں ،شاہی ٹولوں سے ہشیار رہیں ،مگر اعتماد جیتنے کے بعد خود وڈیرہ ملک سردار سے زیادہ سخت رویہ اپنا کر قوم کو کھولا کرکے رکھ رہے ہیں تو وہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے آپ کو سونڈ دکھا نا شروع کردیں گے۔گویا تحریک کا پاپی وہ نہیں آپ ہیں۔
ان کی تاریخ دیکھیں سیاسی دیمکوں نے جگہ بنانے کیلے شروع میں آکر عوام کو انقلابی نعرہ دیکر اندر داخل ہوگئے ہیں کہ ہم اپنے ملک پر تمام قابضین کا قبضہ خاتمہ کرکے دم لیں گے ، قابض ریاستوں سے چھٹکارا حاصل کریں گے ، وہ یہ خوبصورت نعرہ لگاکر ہمدردی حاصل کر نے میں کامیاب ہوگئے ہیں، مگر اختیار پیسہ ہاتھ میں آنے کے بعد وہ شروع کے نعرہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں ،یا اپنی پسند سے دستبردار ہوتے گئے ہیں،کوئی انگلی شہادت کی اٹھائے ، کوئی سوال کرے تو بڑا گناہ گار سوالی وہی ٹھہرتا ہے جس نے انکی کرپشن کی نشاندہی کی اور کہاکہ تحریک کیلے درد سر بن کر نعرہ سے دستبردار گئے ہو ، وہ سننے بعد ٹیڑھی منہ بناکر بڑی بے شرمی سے کہہ کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں کہ ہماری طاقت کمزور ہے ، یہی وجہ ہے ایک سے نمٹنے کے بعد دوسرے پر وار کریں گے ،اگر کوئی پوچھیں دیمک بھائی، لکڑی یا تحریک میں گھسنے سے پہلے یہی نعرہ دینا چاہئے تھا کہ ہم آہستہ آہستہ طاقت کو بڑھاکر کر دشمن پر وار کرتے جائیں گے تو ٹھیک تھا ،یا اب چلو کسی وجہ سے خود ہتھیار پھینک دیئے ہیں، تو دوسروں کا راستہ روکنے اور غنڈہ گردی کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟،
اپنی ذاتی مفادات کیلے کسی اور سیاسی تنظیم کو کیوں بلیک میل کرکے قومی تحریک کا راستہ روک رہے ہیں، جوکامریڈ منزل پانے کیلے دیمک سے پاک تنظیم کا حصہ بننے جارہے ہیں انھیں جانیں دیں رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں ،دوسری جانب ان تنظیموں کو بھی سوچنا چاہئے یہ دیمک زدہ اگر ملک وطن کے مکمل نعرہ سے پھر کر اپنا پیٹ پوجا میں لگے ہیں تو یقینا جانیے وہ کل آپ کو بھی کھوکھلا کرکے چھوڑدیں گے۔ وہ کسی سے وفا نہیں کریں گے ،یہ ہماری آپ کی ذمہداری ہے کہ ہم مقدس تنظیموں سیاسی جماعتوں میں ایسے پختہ کار کامریڈوں کو ذمہداریاں سونپ کر تھنک ٹینک بنائیں ،جس میں ہر فیلڈ کے سلجھے اور مہارت سے بھرپور ساتھی شامل ہوں ۔
صرف یہ کافی نہیں ہوگا کہ فلاں فلاں تنظیم کا سابقہ چیئرمین رہا ہے وکیل،ڈاکٹر ہے،ٹھیکدار یا نام نہاد مڈلسٹ ہے وہی کافی ہیں ، دیکھنا یہ ہوگا کہ جس کا دماغ دیمک زدہ ہے اس سے کنارہ کش کریں ، اگر نہیں تو دیمکوں سے آپ تحریک کو مستقبل میں ناکامی سے نہیں بچا سکیں گے ۔
تاریخ گواہ ہے ہر جگہ دیمکوں نے قوم تنظیموں کا ستیا ناس کرکے خود پلے بڑھے ہیں دوسرو ں کا ہمیشہ گھاٹا کیاہے۔
یہ وہ وقت نہیں جب کوئی سوچے کہ مثبت قدم اٹھانے سے فلاں دیمک ناراض ہوگا ،اگر اس فارمولہ پر دنیا چلتی تو ٹرمپ نامی دیمک کی ہر ملک انڈیا کی طرح فیصلہ کی مخالفت نہیں کرتی ،اور ان سے چھٹکارا پانے کیلے کوئی دوسرے ملک سے دوستی کا نہیں سوچتا ۔
یاد رکھیں دیمکوں کی طاقت تبتک ہے جب تک وہ لکڑی یا تنظیموں کے اندر ہیں ایک دفعہ انھیں نکال باہر کیا گیا تو وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے چڑیئے ،چوزے کا بھی آسانی سے شکار بن جاتے ہیں باہر ان کی حیثیت کچھ نہیں رہتا ۔ سلیم بن کر ظالم سے ظالم شہنشاہ( دیمک )کا مقابلہ کرکے انار کلی کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنا ہوگا ۔چاہئے وہ ایک پل ہی کیوں نہ ہو ،بہادری سے ایک پل جینا بزدلی کے ایک سو سال جینے سے بہتر ہے ۔