شال ( اسٹاف رپورٹر سے )
نامور پبلشر اور صحافی لالہ فہیم بلوچ کی کراچی میں جبری گمشدگی پر ادیبوں، سیاست دانوں قلم کاروں ، صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور واقعہ کی مذمت کی۔
سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ فہیم بلوچ ایک ادب دوست شخص ہے اور بلوچی ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے، اس کی جبری گمشدگی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے، اُنھیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
انسانی حقوق کے رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ جبری گمشدگی کے لیے بلوچ دانشوروں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کی گھٹیا حرکتیں قابل مذمت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس واقعہ پر آواز اٹھانی چاہیے۔
صحافی اور مصنف عزیز سنگھور نے ٹویٹ پر فہیم بلوچ کو لاپتہ کرنے کی سی سی ٹی وی ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس کا پول کھل گیا، فوٹیج میں فہیم بلوچ کو پولیس اہلکار انہیں علم وادب پبلشرز کی دوکان سے لے جارہے ہیں۔
نامور صحافی ضیاالرحمان نے کہا کہ فہیم کو دن کی روشنی میں اس کی دوکان سے اٹھایا گیا۔
ضلع کیچ کے علاقے گوکدان سے تعلق رکھنے والے بیرونی ملک مقیم صحافی کھیاء بلوچ نے کہا کہ فہیم ان کا بہت اچھا دوست ہے۔ وہ بہت محنتی شریف آدمی ہیں۔ انہوں نے خود کو بلوچی ادب اور بلوچستان کے لیے وقف کر دیا۔ یہ اس کا جرم ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی أرگنائزر أمنہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں کتاب سے دوستی لاپتہ ہونے کی اولین نشانی ہے اور کتاب دوست اگر بلوچ ہو کتاب بانٹنے والا ہو شعور کو سمجھنے والا ہو پھر کیسے وہ ظالموں کے چنگل سے بچ سکتا ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے فہیم کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، اُنھوں نے بھی فہیم کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
حکمران جماعت کے رکن اسمبلی ثناللہ بلوچ لکھتے ہیں کہ اس آزمائش الٰہی سیلاب کی صورتحال میں تو کچھ رحم کریں۔
نامور ناول نگار اور صحافی محمد حنیف لکھتے ہیں ملک کا تین تہائی حصہ ڈوبا ہوا ہے جبکہ سندھ حکومت اور اس کے گاڈ فادرز آزاد پبلشر فہیم بلوچ کے اغوا میں مصرف ہیں۔