خضدار ( اسٹاف رپورٹرز سے)
عالمی یوم متاثرین جبری گمشدگی کی مناسبت سے بلوچستان بھر میں مختلف نوعیت کے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔
جبری گمشیدگی کے خلاف منگل کے روز خضدار میں لاپتہ آصف اور رشید بلوچ کے لواحقین کی جانب سے ایک ریلی نکالی گئی جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے علاوہ سیاسی و سماجی رہنماؤں اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔
شرکاء نے احتجاج کے دوران ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے شدید نعرہ بازی کر رہے تھے ۔
احتجاجی ریلی شہید رزاق چوک سے شروع ہوکر ڈسٹرکٹ کورٹ کے سامنے اختتام پزیر ہوئی۔ جہاں ریلی نے جلسے کی شکل اختیار کی اور مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
شرکاء اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں سیکورٹی فورسز لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کرتے ہیں ۔ مگر یہاں سیکورٹی کے نام پر لوگوں کو سیکورٹی فورسز قتل کرریے ہوتے ہیں اور لوگوں کواٹھا کر سالوں تک اپنے اذیت خانوں کے میں پھینک دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں روز اوّل سے یہ ریاستی پالیسی رہی ہے کہ بلوچوں پر طاقت کا استعمال کیا جائے اور انکے بنیادی حقوق کو پاؤں تلے روندا جائے اور اسی پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جائے یا انہیں دوران حراست قتل کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں پھینکے جائیں ۔
مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں کئی جبری لاپتہ افراد کی بیویاں اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اپنے آپ کو بیوہ سمجھیں یا لاپتہ ہونے والے اپنے خاوند کی بیوی سمجھیں۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ اس کا شوہر ابھی تک زندہ ہے یا انہیں قتل کرکے کسی نامعلوم مقام پر دفن کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس ملک میں عدالتیں موجود ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کریں اپنے قانون و آئین کے مطابق سزا دیں، پاکستانی فورسز خفیہ اداروں کا نام لئے بغیر کہاکہ اس طرح لوگوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کرنے سے آپ اپنی ہی آئین و قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طاقت کے نشے میں آپ لوگوں نے مغربی پاکستان کو کھو دیا اور آج وہ بنگلہ دیش بن گیا۔
اگر یہی پالیسی بلوچستان میں رہی آج اگر لوگ کم ہی تعداد میں اس ظلم کے خلاف نکلے ہیں تو یہ چنگاری جس دن یہ بھڑک اٹھی تو وہ آپ کو لے ڈوبے گا۔
اس موقع لاپتہ آصف و رشید کی بہن سائرہ بلوچ نے کہا کہ میرے بھائیوں کو چار سال سے جبری لاپتہ رکھا گیا ہے ۔ ہم عدالتوں اور کمیشنوں کے چکر لگاتی رہی ہیں ، لیکن انصاف نہیں مل رہی ہے ،
انھوں نے کہاکہ ہم کہہ سکتی ہیں کمیشن لاپتہ افراد کے بازیابی نہیں بلکہ لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کیلئے بنائے گئے ہیں۔
آج ہم اپنی پڑھائی و دیگر معمولات زندگی چھوڑ کر کبھی کوئٹہ، کبھی خضدار اور کبھی اسلام آباد میں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے پر مجبور کئے گئے ہیں
انھوں نے کہاکہ اس وقت ہمارا پورا خاندان کرب میں مبتلا ہیں کہ کیا ہمارے پیاروں کے زندگیاں محفوظ ہیں ۔؟