بلوچ دھرتی نے ہر دور میں انمول انسانوں کو جنم دی ہیں جو علم و ادب اور مزاحمت کی پر چار کرتے ہوئے امر ہوئے ہیں۔ ایسی مردم خیز زمین بدقسمتی سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہے۔ جس قوم کی شاخت صدیوں سے ہے وہ ایسی قوم یعنی پنجابی کے زیر دست زندگی بسر کررہی ہے جو صرف مزاحمت کے سامنے سر جھکا کر چلی ہے انکی تاریخ مزاحمت سے نہیں بلکہ سر تسلیم خم کے ساتھ چلی آرہی ہے، لیکن بلوچ جو ہر قابض کے خلاف مزاحمت کی راہ کا انتخاب کیا ہے وہ چاہے انگر یز ہوں یا کہ پرتگیزی ہوں یاکہ سکندر اعظم کی فوج ہو اور آج کے دور میں پنجابی ریاست ہو بلوچوں نے غلامی نہیں بلکہ مزاحمت کا صدا بلند کی ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت بلوچوں کا شیو ا رہا ہے اور اس عمل میں ایسے ایسے جانباز گزرے ہیں جنہوں اپنے کارناموں سے ہماری تاریخ کو مزید خوبصورتی بخشی ہیں۔
تاریخ ایسے انسانوں کو یاد کرتی ہے جو اپنی راہ کا انتخاب خود کر تے ہیں راہوں کے اسی بامقصد انتخاب کی پاداش میں ہزاروں بلوچ جبر ی گمشدگی کا شکار ہیں اور ہزاروں شہادت کا رتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ جنکو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا اُس سے ایک خاندان نہیں بلکہ قابض کا اس اوچھے ہتکھنڈے مقصد پوری قوم کو اذیت دینے میں مبتلا کرنا ہے۔ جیسے قابض پاکستان اپنی اس پالیسی پہ عمل در آمد رہی ہے، جسے ہم اجتماعی سزا کا نام دیں تو غلط نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود بلوچ کے پایہ استقلال میں لرزش پیدا نہیں ہوئی۔
اسی ثابت قدمی کی وجہ سے بلوچ قوم کی ماوں نے کچھ ایسے با کمال، باہمت نوجوانوں کوجنم دیا ہے جو کہ اپنے علم وعمل اورقومی کردار کی بنیاد پر اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہیں جو اپنے قوم اور اپنے خاندان کو شرف کا اعلی مقام دلاتے ہیں جو کہ ناقابلِ فراموش ہوتا ہے۔
تاریخ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جب جب محکوم و مظلوم اقوام پر بالا دست طاقتوں نے حملہ کرنے کی کوشش کیا تو قوموں میں موجود باشعور، بہادر اور غیرت مند لوگوں نے ان کا مقابلہ کیا اور قربان ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے ہیں اور مختلف اذیتیں برداشت کیے، اپنی جان بازی لگائی ہے اور اپنی قوم کو راہ نجات کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کیے۔
ھم اپنے آپ کو قوم کے خوش نصیب فرزند نہ صر ف اس لئے سمجھتے ہیں کہ اس قومی جد وجہد میں شامل ہیں بلکہ اس لئے کہ ھم اس عہد میں زندہ ہیں جس عہد میں مزاحمت کا بول بالا ہے۔ یہ بلا شبہ مزاحمت اور عظیم مزاحمت کا زمانہ ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے بلوچ قوم کے فرزند اپنی قومی شناخت اور وقار کو بچانےکے لئے جان کی بازی لگاکر بارود بن کر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں اور وطن کی آزادی کے لئے شہادتیں ،قربانیاں ، اور دیگر تکالیف خندہ پیشانی سے قبول کررہے ہیں۔
بلوچ نوجوان مزاحمت کے میدان میں وہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں شاہد کسی نے اس سے پہلے سرانجام دی ہو۔ بلوچ دھرتی کے وارث ان بہادر سپوتوں کی بہادری کی بدولت دشمن کے سامنے سر اٹھانے اور سینہ تان کر بلوچ ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔
میں ایسے جان نثاروں کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جو تاریخ میں امر ہو چکے ہیں جن کا کردارو گفتار میں تضاد نہیں پا یا جا تا تھا۔ وطن کی خاطر موت کو قبول کرنے والے جہد کار ظہور جان ، ساجد جان ،اکبر جان ،تاہیر جان ، ،عطا جان کو یاد کرتے ہوں انکی ہمت کو داد دیتا ہوں کہ جنھوں نے اپنے آپ کو آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لئے قربان کیا اور خود کو تاریخ کے نقوش پر زندہ رکھا۔
شہدائے انجیری کو یاد کرنے کا مقصد انکی شان میں چند حروف لکھنا نہیں بلکہ مقصد یہی ہے جو حوصلہ میں نے ان نوجوانوں میں دیکھا تھا جو دایو نگی کی حد سے زیادہ تھی انہیں افشا کروں تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ بلوچ نوجوان وطن کی آزادی کے کیسے خود دیوانہ وار مقصد پہ قربان کرتے ہیں۔
چیرمیں ظہور عرف بال دوست ،ساجد جان عرف سمیر بلوچ زمانہ طالب علمی سے سیاست میں کا فی دلچسپی رکھتے تھے اسی دور سے وہ جذبہ جنون کی تک پہنچ چکے تھے اسی شعور نے انکو غلامی کا إحساس دلایا جو قومی مزاحمت برائے نجات کی راہ کا انتخاب کیا۔ جنہوں نے ثابت کیا کہ دشمن کی جبر انکو شکست نہیں دے سکتا ہے ساجد جان دشمن کی گولی لگنے کے باوجود اپنے آخری پیٖغام میں کہتا ہے کہ مجھے گولی لگی ہے میں نہیں جانتا ہوں زندہ رہوں گا یا شہادت نصیب ہو تی ہے اس کی کو ئی پر واہ نہیں اس راہ میں شہید بابا خیر بخش، پیرک جان اور دیگر نے خود کو قربان کیا ہے اور امر ہو گئے۔ مجھے بھی شہادت نصیب ہو تا تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی۔ یہ کاروان اسی طر ح چلنا چاہئے قوم سے اپیل ہے کہ وہ بلوچ سر مچاروں سے اپنے رابطہ برقرار رکھیں یہی راہ نجات ہے۔ دشمن شکست کھا چکی ہے بس ہمیں مضبوط ہو نا چاہئے اس شعور کو کون مار سکتا ہے، یا ختم کر سکتا ہے جہاں موت کو خنداہ پیشانی سے قبول کیا جاتا ہے۔ اب یہ شعور ہر نوجوان میں سرایت چکی ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ دیوانگی کبھی ختم نہیں ہو تی وہ اپنی منزل حاصل کر تی ہے۔ بلوچستان میں اب ایسے فرزندوں کی کمی نہیں جو دیوانگی کی حد تک وطن سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور اپنی محبت کی خاطر یعنی وطن کی آزادی کے لیے آگ کے دریا سے گزرنا بھی ان کے لیے محال نیں۔ یہی دیوانگی و جنون ہے جہاں وہ آئے روز اپنی قیمتی جانوں کا نذرنہ پیش کر رہے ہیں. بے شک ایسے کردار انمول ہوتے ہیں