لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 13 سال مکمل ہونے پر کراچی پریس کلب میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی دین بلوچ سمیت سول سوسائٹی اور دیگر افراد نے شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سمی دین بلوچ نے کہا کہ آج میرے بابا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو تیرہ سال مکمل ہوگئے ہیں۔ جنہیں خضدار کے علاقے اورناچ سے رات کو بطور ڈاکٹر ڈیوٹی کے دوران مسلح اہلکار تشدد کرکے گھسٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ ہمیں نہیں پتا کہ بابا نے تیرہ سال اذیت گاہ میں کیسے گزارے، ان پر کیا گزری، مگر ہم گھر والوں پر یہ اذیت ناک قیامت خیز تیرہ سال کیسے گزرے ہیں ہم ہی جانتے ہیں جو شاہد ناقابل بیان ہوں۔
تیرہ سال کی طویل گمشدگی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی انتہائی بھیانک شکل ہے، جسکا نہ ریاست کو احساس ہے اور نہ ہی کھبی اسکا ازالہ کرسکے گی، ہم سے نہ صرف ایک باپ کی شفقت چھینی گئی بلکہ ایک بیوی سے اسکا شوہر، ایک ماں سے اسکا بیٹا، بھائیوں سے ایک بھائی کو چھینا گیا۔ یہ 13 سال ایسے نہیں گزرے، ہم اس درد اور تکلیف کو کھبی نہیں بھول سکتے، اس بھیانک خواب کو جو آج ہماری رگوں میں اتر چکا ہے، ہماری زندگیوں کی ویرانی، ہمارا بچپن، ہمارے خواب سب اذیت گاہ میں گزر چکے۔ اس درد کو بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
والد صاحب کے واقعے کے بعد میں خود سے لاتعلق ہوگئی،مجھے اپنے وجود تک کا نہیں پتا، میری عمر میں لڑکیاں اپنا مستقبل بنانا چاہتی ہیں، اپنا گھر بسانا چاہتی ہیں، لیکن میں اس عمر میں ان سوچوں سے بے نیاز ہوں، مجھ سے لوگوں کے درمیان نہیں بیٹھا جاتا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ ان 13 سال کے طویل عرصے کے غم و پریشانیوں کو بیان کرسکوں۔ میری دادی آخری وقت تک یہ خواہش کرتی رہیں کہ مجھے میرے بیٹے سے ملوا دو۔ میں بحیثیت شہری یہ کہوں گی کہ اس ملک میں شہریوں کے کیا حقوق ہیں۔
میں ریاست سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے کیا حقوق ہیں۔ میں بحیثیت شہری یہ کہتی ہوں کہ میرے پاس اب اور حوصلہ نہیں، میں اپنے درد کو اور بیان نہیں کرسکتی۔ جس طرح ریاست نے ہمارے باپ کا سایہ ہم سے چھینا، اس کے بعد ہمارے گھر اور خاندان پر جو بیتی وہ ناقابل بیان ہے۔ ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ روزانہ ملنے والی مسخ شدہ لاشوں میں اپنے والد کو تلاش کرتے ہوئے مجھے رونا آجاتا ہے۔
گزشتہ 13 سال میں ملک کی عدالتوں میں، وزیر اعظم اور حکومتی ارکان سے ملاقاتیں کیں اور اپنے والد کی جبری گمشدگی کے حوالے سے کہا۔ حالیہ کچھ دنوں میں ہم پرامن طریقے سے بھی احتجاج نہیں کرسکتے۔ کراچی پولیس کا پرتشدد رویہ قابل مذمت ہے۔ پریس کلبوں سے پیدل لانگ مارچ کرنا، لوگوں سے اپنے والد کے بارے میں پوچھنا، لوگوں کی بازیابی کیلئے جدوجہد پر ریاست کو پوچھنا چاہیے لیکن ریاست پرامن طریقے سے سمجھتی نہیں ہے، جس کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے ریاست اسی سے مذاکرات کرتی ہے۔
ہمارا پرامن احتجاج ریاست کو نظر نہیں آتا۔ پھر بھی گزشتہ 13 سال سے ہم نے اپنی جدوجہد کو پرامن رکھا، ہمارے احتجاج اور جدوجہد کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ ریاست کہتی ہے کہ آپ کے پاس دو آپشن ہیں یا تو گھروں میں بیٹھیں یا خاموش ہوجائیں۔ آپ لوگ سڑکوں پر پرامن طریقے سے احتجاج نہیں کرسکتے تو پھر ہم اپنا مقدمہ کس کے پاس لے جائیں