پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور میں افغان فنکاروں کی گرفتاری اور فغانستان کے طالبان حکومت کے حوالگی کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فن کاروں اور گلوکاروں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد پار پاکستان میں خیبر پختونخوا نقل مکانی کی تھی۔ ان میں سے بعض فن کاروں کو پشاور میں پولیس نے حراست میں لیا ہے جن کو عدالت نے افغان حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جس پر اب پاکستان میں موجود یہ فن کار احتجاج کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی اسمبلی اور پشاور پریس کلب کے سامنے پیر کو افغانستان کے چار گلوکاروں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ تھانہ تہکال کے اہلکاروں نے جمعے کی شب ان افغان گلوکاروں کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
گرفتار افراد کو بعد ازاں عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ان افراد کے سامنے دو تجاویز رکھی ہیں جن میں ایک تو یہ ہے کہ ان کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے یا پھر بغیر دستاویزات پاکستان آنے پر ان کو جیل میں سزا کاٹنی ہو گی۔ عدالت رواں ہفتے ہی اس کیس کی دوبارہ سماعت کر سکتی ہے۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں اور موسیقاروں کی گرفتار کے بارے میں اتوار کو سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی جس کے بعد ملک بھر بالخصوص خیبرپختونخوا سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔
خیبر پختونخوا کے گلوکاروں کی تنظیم کے صدر راشد خان نے پشاور پولیس کے اس اقدام کے خلاف پیر کو احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔راشد خان کی اپیل پر پیر کی صبح سے گلوکار اور موسیقار پشاور پریس کلب کے سامنیجمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مظاہرین میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔مظاہرین افغان گلوکاروں اور موسیقاروں کی رہائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ احتجاج میں پشتو کے معروف گلوکار احمد گل، امجد شہزاد اور معروف طبلہ نواز اسماعیل خان سمیت ادیب اور مصنف حیات روحانی نے بھی شرکت کی۔
خیبرپختونخوا کے گلوکاروں کے تنظیم کے صدر راشد خان نے مظاہرے سے خطاب میں حکومت سے افغانستان سے آئے ہوئے گلوکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ نرمی برتنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ نہایت مجبوری کی حالت میں پاکستان آئے ہیں کیوں کہ اگست 2021 کے وسط سے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے سب سے پہلے موسیقی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے سب سے پہلے گلوکاروں اداکاروں اور موسیقاروں کو گرفتارکرنا اور ان پر تشدد کرنا شروع کر دیا تھا۔
پشاور پریس کلب کے سامنے لگ بھگ دو گھنٹے احتجاج کرنے کے بعد مظاہرین جلوس کی شکل میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے