بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ 4658 ویں دن بھی جاری رہا –
تنظیم کے مطابق کئی سالوں سے مسلسل اس احتجاجی کیمپ کا مقصد پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بحفاظت بازیابی اور جبری گمشدگیوں کا روک تھام ہے –
کیمپ میں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں –
آج وکلا برادری اور سیول سوسائٹی کے لوگوں سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ میں آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی –
اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاستی ادارے وحشیانہ کارروائیوں سے ہمارے پرامن جدوجہد کو ختم نہیں کر سکتے ہیں، ہم قومی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے-
قلات، مستونگ، منگوچر اور گردونواح میں فوجی نقل و حمل میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو ایک بڑے فوجی آپریشن کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے-
انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی مخبری کرنے انہیں ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ کروانے والے ڈیتھ اسکواڈ جن کے سر پہ ریاستی اداروں کی دست شفقت ہے اور انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ جب جہاں کسی کو جبری اغواء کریں یا قتل کریں، دوسری جانب ایسے لوگ نام نہاد سیاسی اور سماجی شخصیات بنے ہوئے ہیں اور معاشرے میں اعلیٰ عزت اور مقام کے متلاشی ہیں، سول سوسائٹی کو چاہیے کہ ان جیسے کرداروں کو بے نقاب کریں ان کیلئے بلوچ سرزمین تنگ کریں جو بلوچ قوم کے دشمن ہیں