یہ انیسو ترانوے کی بات ہے میرے گُرو استاد کہا کرتے تھے ’’ہمارا ایک تعلیم یافتہ دوست تھا اس نے ایک جاہل بیوی سے شادی کرکے زندگی بھر پشتاوے کا شکار بنا ۔ لہذا جو بھی کامریڈ لکھے پڑھے اور شعور رکھتے ہیں انھیں چاہئے جاہل بیویوں کے بجائے تعلیم یافتہ بیویوں سے شادی کرکے نہ صرف اپنے خاندان کو باصلاحیت پیداوار بلکہ قوم اور وطن کیلے بھی باشعور نسل مل کر پیدا کریں ‘‘ ۔
اس وقت ان باتوں کی تہہ تک جاننے کا خاص ادراک نہیں تھا کہ وہ یہ مثال اپنے لیئے دے رہے ہیں ۔ مگر وقت اور حالات نے اتنا سب کچھ سکھا دیا کہ آگے چل کر یہ یقین ہو چلا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے ۔ خاتون لکھی پڑھی اور باشعور ہو تو اسے انپڑھ مرد سے اور مرد کو انپڑھ خاتون سے شادی نہیں کرنا چاہئے ۔ یہاں تعلیم اور شعور سے مطب محض تعلیم کی ڈگری نہیں بلکہ حقیقی تعلیم ہی ہے ۔ ویسے کہنے کو پاکستانی جنرل اور کرنلوں کی بیویاں بھی انکی طرح میٹرک کی ڈگریاں رکھتی ہیں ۔ مگر انسانیت اخلاقیات اور تہذیب سے عاری ہیں یہ بات یقیناََ آپ راقم سے بہتر جان سکتے ہیں کیوں کہ ان کی بیویوں کے کارنامے اکثر سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔
پاکستانی جنرل اور کرنلوں کی بیویوں کے کارنامے جس طرح کوئی زی شعور پسند نہیں کرسکتا اگر اس طرح وہی اثرات خدانخواست بلوچ سماج میں ترقی پسند آزادی پسند رہنماوَوں کے انپڑھ یا نیم خواندہ لکھی پڑھی بیویوں پر پڑ جائیں، اور وہ اپنے سیاسی ،مسلح،یا کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے شوہروں کو جمبورے بناکر نچاتی رہیں تو یقیناََ یہ نقصان ان کے ذات تک محدود نہیں بلکہ دیمک کی طرح قومی نقصان کے حد تک پہنچ جائے گا ۔ مثلاََ مقبوضہ بلوچستان کے کوئی آزادی پسند پارٹی تنظیم (سرفیس) یا (زیر زمین ) تنظیم کی بچاکچھا قیادت اپنے تنظیمی ڈھانچہ میں غیر جمہوری عمل ( غیر اعلانیہ )نافذ کرکے ، تنظیم اور پارٹی کو آئین اور منشور پر چلانے بجائے غیر جمہوری انداز میں چلائیں ،سالوں سال پارٹی تنظیم کو خود یرغمال بناکر چند چمچوں کو آس پاس بٹھاکر امور چلائیں تو یقیناََ قومی تباہی اور زوال کی طرف تیزی سے جائیں گے ۔ اور یہ زوال تنظیم اور پارٹی رہنما کارکن تک محدود نہیں رہے گا بلکہ قومی زوال کا ناسور بن کر سبب بنے گا ۔
دوسری جانب پاکستانی کرنلوں کی طرح اگر ان کی بیویاں بھی مقابلہ کی دوڑ میں شامل ہوں اور ہر کوئی اس میں لگی رہے کہ میری ٹاسنی بڑی ہے
فلاں کی بیوی کی چھوٹی ، میں بنگلہ گاڑی رکھتی ہوں فلاں کی نہیں تو انجام وہی ہوگا کہ ایک طبقہ بلڈی سولین اور دوسرا طبقہ کرنل اور افسر شاہی کہلائے گا ۔
امید ہے پاکستانی جنرل کرنلوں کی بیویوں کی غلط سوچ ہمارے بلوچ سیاسی سماجی لیڈروں کے انپڑھ اور کم پڑھی لکھی بیویوں پر نہیں پڑے گی ۔ اور اور انکے سیاسی یا غیر سیاسی شوہر پاکستان کے ان کرنلوں کی طرح جمبورے بن کر اپنی بیویوں کے ہاتھوں کھلونا نہیں بنیں گے اور نہیں سرمایہ دارانہ سوچ کو پنپنے دیں گے ۔ بلکہ وہ وہی راستہ اپنائیں گے جس سے قوم وطن کو فائدہ پہنچے اور ان کے خود کا بھلا ہو ۔ اگر اس بات پر اڑے رہے کہ کھال موٹا کرکے تنظیم اور پارٹیوں کو غیر آئینی انداز میں چلنا چاہئے اور انپڑھ کم لکھی پڑھی بیوی کی بات اور فرمائشیں پوری کرکے سہنا چاہئے تو پھر قوم اور انکے درمیان وہی فاصلہ اور دوریاں پیدا ہونگے جو کشمکش پاکستانی فوج اور عوام کے درمیان اس وقت چل رہاہے ۔ یہ فیصلہ ہر زی شعور کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس بھیانک سوچ کا کیسے زیر کر سکتے ہیں ۔ ؟