افغانستان میں دو منی بسوں میں بم دھماکے، 9 افراد ہلاک

افغانستان کے شہر مزار شریف میں دو منی بسوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 9 افراد ہلاک ہو گئے۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال طالبان شدت پسندوں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پورے افغانستان میں پرتشدد حملوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن شدت پسند گروپ داعش کی جانب سے لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ماہ رمضان کے پچھلے دو ہفتوں میں اقلیتی برادریوں کے افراد کو نشانہ بنانے والے بم دھماکوں نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جہاں ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ بلخ کی صوبائی پولیس کے ترجمان آصف وزیری نے کہا کہ جمعرات کو دھماکے مزار شریف کے مختلف اضلاع میں چند منٹ کے فرق سے ایک ایسے موقع پر ہوئے جب مسافر رمضان کا روزہ افطار کرنے کے لیے اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کا ہدف شیعہ مسافر معلوم ہوتے ہیں جبکہ ان دھماکوں میں 13 افراد زخمی بھی ہوئے۔ افغانستان کے دشمن ہمارے لوگوں میں تناؤ اور تفرقہ پیدا کر رہے ہیں، ابھی تک کسی گروپ نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک منی بس میں آگ لگ گئی ہے جب کہ دوسری ویڈیو میں طالبان اہلکار گاڑی سے متاثرین کو ہسپتالوں لے جا رہے ہیں۔ یہ دھماکے مزار شریف کی ایک مسجد میں ہونے والے مہلک بم حملے کے ایک ہفتے بعد ہوئے ہیں جس میں کم از کم 12 نمازی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک حملے میں شیعوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں کابل کے ایک اسکول میں دو بم دھماکوں میں چھ طلبہ ہلاک ہوئے۔ شدت پسند تنظیم داعش نے مزار شریف میں مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم اب تک کسی گروپ نے قندوز اور کابل کے اسکول میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ افغانستان میں آئی ایس کی علاقائی شاخ نے بارہا شیعہ اور صوفی جیسی اقلیتوں کو نشانہ بنایا ہے، جو اسلام کی صوفیانہ شاخ کی پیروی کرتے ہیں۔ طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ان کی افواج نے داعش کو شکست دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہادی گروپ اب بھی ایک اہم سیکیورٹی چیلنج ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو کہا کہ حالیہ حملوں کے سلسلے میں متعدد گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں ان جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں مساجد اور اسکول جیسی سیکیورٹی نہیں تھی لیکن اب ہم نے ایسی جگہوں پر سیکیورٹی بڑھا دی ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post