سوشل میڈیا پر کج بحثی کا رجحان اور نوجوان نسل
تحریر سمیر جیئند بلوچ
ہر طرح کی غلامی سے چھٹکارا پانے کیلے ایک مٹھی بن کر جہد کرناپڑتی ہے ،یہ ایک طے شدہ بات ہے ۔ اور دنیا کے ہر وہ غلام جب تک مٹھی نہیں بنا ،اس وقت تک وہ دنیا کے کمزور ترین ملک قوم ،قبیلہ ،طبقہ ،حتی کہ محلے میں کمزور پنچائیت کے سامنے بھی بھیگی بلی بن کر زندگی گزار نے پر مجبور ہوا ۔ جس کی واضح مثال جمہوریت میں ایک ووٹ کی حیثیت سے لگایاجاسکتاہے ، ایک، ایک ووٹ مل کر کسی گھوڑے کو
گدھا اور گدھے کو گھوڑا بنانے میں کردار نبھاتے ہیں ۔ اس فلسفہ کو دماغ میں بٹھاکر جب ہم اپنے قوم کے مختلف طبقہ ہائے کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو یہاں بھی ایک غلام ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ نے کا عمل برقرار سدابہار ملتاہے ۔ اس غیر ذمہدارانہ رویہ کو آپ ہمارے کسی بھی انقلابی آزادی پسند تنظیم سرفیس پارٹی یا زیر زمین تنظیم ،نام نہاد لبرل سوچ کے حامل افراد ،سیکولر ،قوم پرست ،پیٹ پرست ،بنیاد پرست ،طلباء تنظیموں سمیت کاروباری طبقہ ،زمیندار ،تاجر ٹرانسپورٹ ،لینڈ مافیا ،مافیا الغرض سوشل میڈیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ یہاں تما م طبقہ فکر پر بات کرنا یقیناََ ممکن نہیں کیوں کہ یہ ایک کالم میں نہیں سما سکتے جس کا محدود دائرہ کار ہے ۔ لہذا ہم صرف سوشل میڈیا پر ایک مختصر نذر ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ یہاں پھر حد بندی کی ضرورت ہوگی کیوں یہ بھی وسیع ہے تو ہم سوشل میڈیا میں صرف اور صرف کلب ہاوَس اور ٹیوٹر اسپیسس پر اپنے نواجون،پیرورنا سیاسی سماجی ملک میں رہنے والوں سمیت باہر یورپ وغیرہ میں بیٹھنے والے افراد کے رویہ بارے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بحثوں میں بجائے یکجہتی،کے انتشار کج بحثی دن بدن کم ہونے بجائے زیادہ کیوں دیکھنے کو مل رہا ہے ؟ اور عدم برداشت تنقید برائے تنقید روز بروز کیوں زور پکڑ رہی ہے ۔ راقم کے ناقص رائے میں جو مشاہدے ہوا اور سننے کو ملا اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوئی کہ ہمارے اندر عدم برداشت ،سننے کی برداشت کم، بولنے کی زیادہ ،مطالعہ کی فقدان ، اور ہرفن مولا بننے کی رجحان ان کے بڑے اسباب گنے جاسکتے ہیں ۔ حالانکہ ہونایہ چاہئے تھا کہ جس طرح قدرت نے ہر ایک انسان کو کسی نہ کسی شعبہ میں قدرت دے رکھا ہے ۔ اس پر توجہ دیتے اور اپنے ا ندر وہ صلاحیت ڈھونڈ کر اس پر کام کرتے ، ان کے بجائے ہم ہرجگہ منہ ماری کرتے پھر رہے ہوتے ہیں ،جیساکہ کسی اسپیس میں بات ،سیاست پر ہور ہی ہوتی ہے ،اس سے ہمیں غرض نہیں ۔ ہم روزمرہ زندگی میں میڈیکل یا کسی اور فیلڈ میں علم حاصل کر رہے ہوتے ہوں یاعملاََ کر رہے ہوں مگر ہم فوراََ وہاں ٹپکیں گے یہ سوچے بناکہ جہاں بحث جاری ہے وہ ایک گھنٹہ یاچار گھنٹہ پہلے سے جاری ہے اور اس میں سیاست کے علاوہ کن کن موضوعات پر بحث ہوئی ہوگی ،یا وہاں بحث میں مختلف لمحات ،مثلاََ ہنسی مزاق،رونا ،سنجیدہ ہونا ،بدمزگی پیداہونا ، وغیرہ وغیرہ کے مراحلہ گزر رہے ہونگے کے بارے میں کوئی فکر نہیں کرتے ۔ بس اچانک ٹپک جاتے ہیں لسنر میں بیٹھتے ہی گیس سے بھر جاتے ہیں اور فورا اسپیکر تک پہنچ کر بولنا شروع ہوجاتے ہیں ،لاکھ ہوسٹ ،کوہوسٹ بتادیں کہ یہ ہماراموضوع نہیں مطلب ہماراموضوع تنقیدی یاغیر تنقیدی ہے مگر نئے گیس سے بھرے اسپیکر کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،جو اس کے ذہن میں پہلے سے تیار خاکہ ہے وہی جھاڑ کر یہاں سے رفوچکر ہوکر دوسری اسپیس میں وارد ہوگا جیسے اس کا یہ اپنامشغلہ ہے ۔ یہاں سے چھلانگ مار وہاں پہنچے گا جہاں زبان شعرشعاری ادب پر بات ہورہی ہوتی ہے ۔ موصوف کو اس سے غرض نہیں فٹ سے مائک لیا انمیوٹ کرکے مٹھو کی طرح وہی رٹ لگاناشروع کردیتا ہے ،جو وہ سیاست کے اسپیس میں مافیا کی طرح گھس کر طوطے کی طرح بول کر آئے تھے ۔جیسے ہی یہاں بات ختم ہوئی ۔وہ مذید بیٹھ کر دوسروں کو سننے کی زحمت نہیں کریگا بلکہ کسی نئے اسپیس یاکلب ہاوس کے روم میں گھس جائے گا ۔ وہاں میڈیکل کی بات ہورہی ہو وہ حسب سابق اپنا بھڑاس نکال کر وہاں سے رفوچکر ہوگا ۔ بس ایسے دن رات اوررات دن میں بدلتے جائیں گے حتی کہ یہی سلسلہ مہینوں اور سالوں چلتارہتاہے ۔ آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ موصوف ایک گرگٹ کی شکل اختیار کرکے ہر جگہ علم جھاڑتا رہتاہے ،ٹوکنے یاسمجھانے پر بارہ انچ کی لمبی زبان نکال کر چار پانچ گھنٹہ سے جاری روم اور اسپیس کا ستیا ناس کرکے چلاجائے گا ، جب وہ لڑائی جھگڑے بعد محفل کا جان چھوڑدیتاہے تو سب شکر کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک بلا تھا ٹل گیا مگر وہ جاکر اژدھا بن جاتاہے مختلف مختلف شکلوں میں اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتا ہے ،جس کے رنگ آپ کو سوشل میڈیا میں ملناشروع ہوجاتے ہیں ۔ جس طرح راقم نے لکھا کہ جاری چار مانچ گھنٹے کے اسپیس یاروم میں مختلف مراحل آجاتے ہیں تو وہ محض ایک جملہ ،یا مزاق کا ٹکڑا ، ایموشنل ،ری ایکشن کا چھوٹا ٹکڑا شیئر کرکے کردار کشی ان ہوسٹ اور کوہوسٹ یا موڈیٹر وں کا کرتاہے ۔دانا بن کر پوسٹ میں لکھتاہے کہ فلان نے فلانے کو رلایا فلان پر بے ہودہ مزاق قصے وغیرہ وغیرہ حالانکہ رونے یامزاق کرنے والے کبھی وہ الزام نہیں دیتے کہ موڈیٹر نے ہمارامزاق اڑایا یا ہمیں رلایا ۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس آدھے تیتر آدھے بٹیر کو دوسرے دوست یہ سمجھانے کے بجائے کہ آپ کی غلطی ہے آپ دوست بنیں آئندہ یہ حرکت نہ کریں ،الٹا وکیل بن کر جہاں روم یا اسپیس کسی اچھی بحث پر چل رہی ہو فوراََ کود کر بدمزگی پیداکرنے لگتاہے کہ آپ نے فلاں کو بولنے نہیں دیا ایسا کیا ویسا کیا یعنی مدعی سست گواہ چست بننا اپنا فرض منصبی سمجھنے لگ جاتاہے ۔ اور تو اور اپنی ذاتی عنا ء کو تسکین دینے کی خاطر یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ دیکھیں میرے ساتھ بھی ایسا یاویسا کیا ،بولنے نہیں دیا ،فلان نے دس منٹ بات کی مجھے ایک جملہ پوراہونے نہیں دیا وغیرہ ۔ آپ لاکھ سمجھائیں کہ جس نے دس منٹ بات کی اس کا فیلڈ تھا ۔ آپ اس سبجیکٹ سے تعلق نہیں رکھتے اسلئے میک نہیں دیاگیا تو وہ نہیں مانے گا نہی مانتے تو بھی اچھی بات تھی ،مگر وہ ذاتیات پر اتر جائے گا ۔ سالوں کی دوستی نظریاتی ہم آہنگی کی دھجیاں اڑاکر بیس میٹر دور جابیٹھے گا ۔ جیسے دشمن طاقتور ملک یاطبقہ اس کے استحصالی فوج انکے دلالوں سے انھیں مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ آپ ہیں ۔ اس غلط رجحان سے نکل نے کا واحد حل یہی ہے اگر اسپیس سیاست پر ہے آپ کا فیلڈ کوئی اور ہے تو آپ ایک فرمانبردار بچے کی طرح جاکر بیٹھ جائیں اور ان کو سنیں جو اس فیلڈ میں ماہر ہیں یا آپ کے فیلڈ کا ہی بحث ہے تو لازم ہے خوب تیاری کرکے آئیں اور بحث میں اس نیت سے حصہ لیں کہ سننے والوں کو فائدہ پہنچے وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے اپنے دویاچار گھنٹہ روم یا اسپیس میں صرف کرکے وقت کا ستیاناس کردیا ۔
نوٹ
آئندہ اس موضوع پر بھی لکھنے کی گنجائش ہے کہ سو شل میڈیا پر کیسے کیسے آستین کے سانپ ہیرو ہیروئن بن کر بلوچ ہونے کے ناطے ہمدردی بٹور کر اپنا منہ کالا کرتے ہیں ۔