شال ( نامہ نگار ) بلوچ نیشنل مومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا شفیق زہری کی جبری گمشدگی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان بلوچستان میں اجتماعی سزا کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ بلوچستان میں انصاف کا مطالبہ کرنا بھی ایک خاندان کو سب کچھ کھونے پر مجبور کر سکتا ہے۔
انھوں نے کہا ہےکہ راشد حسین کی محفوظ رہائی کے مطالبے کو سننے کے بجائے حکام نے ماہ زیب کو سزا دینے کے لیے ان کے والد شفیق زہری کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔
چیئرمین بی این ایم نے کہا ہے کہ اس واقع کے بعد یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ بلوچ کارکن ماہ زیب شفیق پاکستان کی ریاستی پالیسیوں کا ایک اور نشانہ بن چکی ہیں، وہ اپنے چچا راشد حسین کی باحفاظت بازیابی کے لیے پُرامن اور قانونی جدوجہد کررہی ہیں، تاہم پاکستانی فوج نے ان کے خاندان کی تکالیف میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ان کے والد، شفیق زہری کو اغوا کر کے جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہےکہ یہ ظلم کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت ریاستی ادارے اختلافِ رائے کو دبانے اور انصاف کا مطالبہ کرنے والی بلوچ آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پورے خاندانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
جب متاثرہ خاندان اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں انصاف کے بجائے مزید جبر اور انتقام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بی این ایم چیئرمین نے مزید کہاہے کہ ماہ زیب بلوچ کی جدوجہد اُن بے شمار بلوچ خواتین کی نمائندگی کرتی ہے جو جبری گمشدگیوں، دھمکیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف اپنے خاندانوں کی واحد آواز بننے پر مجبور ہیں۔
