شال (نامہ نگار ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر مہرنگ بلوچ جو پچھلے سات ماہ سے جھوٹے الزامات اور غیر قانونی طریقے سے
ہُدّہ جیل، کوئٹہ میں بند ہیں نے جاری بیان میں ماما قدیر کی وفات پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاہے میرے والد کی جبری گمشدگی کے دوران، انہیں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کی خبر ایک باسی روٹی میں لپٹے پرانے اخبار کے ٹکڑے سے ملی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ خبر ان کے لیے شدید نفسیاتی صدمے کا باعث بنی۔ اسی طرح، گزشتہ نو ماہ کے دوران، جب ہم قید میں ہیں، ہم مسلسل بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی خبریں سنتے آ رہے ہیں۔ جب لوگ ہم سے ملاقات کے لیے آتے ہیں تو میرا پہلا سوال اکثر یہی ہوتا ہے: کیا آج کسی اور بے گناہ کو قتل کر دیا گیا ہے؟ اور میرے وطن کے کتنے مزید نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اس بے رحم ریاست نے غائب کر دیے ہیں؟
انھوں نے کہاہے کہ 20 دسمبر کو آنے والے اخبار نے میرے لیے ایک اور غم ناک داستان لائی۔ اس دن بلوچ سیاسی کارکن بانوک کریمہ کی پانچویں برسی تھی اور میں گلزادی اور بیببو کو کراچی سے تُمپ تک ان کی میت کی منتقلی کی مشکلات سنا رہی تھی کہ اسی بحث کے دوران ہمیں ماما قدیر کے انتقال کی خبر ملی۔
ماما قدیر بلوچ قومی تحریک کے ایک ثابت قدم اور اصولی سیاسی کارکن تھے۔ سولہ برس تک انہوں نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ ماما قدیر کی قیادت میں قائم کیا گیا لاپتہ افراد کا کیمپ بلوچستان کے ہر سیاسی کارکن، بشمول میرے، کی ابتدائی سیاسی تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کرتا رہا۔ اس کیمپ میں آویزاں تصاویر نے دو دہائیوں تک دنیا کے سامنے بلوچ نسل کشی کی ہولناک تصویر پیش کی۔ ایسے وقت میں جب پاکستانی میڈیا بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش تھا اور ضمیر فروش سیاست دان نام نہاد ترقی کے جھوٹے بیانیے گھڑ رہے تھے، یہ کیمپ ریاست کی جاری خونریزی کو بے نقاب کرتا رہا۔
جب بلوچ سرزمین لاشیں اگل رہی تھی اور بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما یا تو جبری گمشدگی کا شکار ہو چکے تھے یا شہید کر دیے گئے تھے—جن میں ماما قدیر کے اپنے بیٹے جلیل ریکی بھی شامل تھے—ماما غم میں ڈوب کر نہیں بیٹھے۔ بلکہ انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھیوں کی بازیابی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔ وہ ہر اس خاندان کے لیے حوصلے کی علامت بن گئے جس نے ریاستی جبر کے نتیجے میں اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا۔
میرے والد غفار لانگو کہا کرتے تھے کہ جب بھی میری قید کے باعث دل ٹوٹنے لگے تو ماما قدیر کے کیمپ میں لگی تصاویر کو دیکھ لینا۔ یہ تصاویر گواہی دیتی ہیں کہ لوگ برسوں سے لاپتہ ہیں۔ میرے والد کی شہادت کے بعد، اسی کیمپ میں لگی تصاویر نے مجھے ایک مقصد اور سمت دی جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔
میں نے ماما قدیر کی غیر متزلزل استقامت کو قریب سے دیکھا۔ میں نے انہیں بابا خیر بخش مری کی وفات کے بعد، بابا کے بیٹوں کے ساتھ مل کر ان کی میت حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے دیکھا۔ بلوچستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب خوف کے باعث زیادہ تر خاندان خاموش ہو گئے تھے، مگر ماما قدیر نے لاپتہ بلوچ بیٹوں کو فراموش نہیں کیا۔ انہوں نے ان کی تفصیلات جمع کیں اور ان کے نام اور تصاویر آویزاں کیں۔ جب ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں سے انکار کرتے تھے، ماما کا کیمپ اس جھوٹے پراپیگنڈے کے خلاف ڈٹا رہا۔
جیسے جیسے جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوتا گیا، کیمپ میں لگے پوسٹر ہر ماہ تبدیل ہونے لگے۔ یہی وہ کیمپ تھا جو ابتدا میں چند سیاسی کارکنوں—جیسے ذاکر مجید بلوچ، جلیل ریکی اور علی اصغر بنگلزئی—کی بازیابی کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو بعد ازاں بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کی ایک طاقتور تحریک بن گیا۔ کیمپ کے چاروں اطراف ان بہادر نوجوانوں کی تصاویر آویزاں تھیں جنہیں پاکستانی فورسز نے لاپتہ کیا تھا۔
بعد میں، جب لاپتہ افراد کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھنے لگے تو کیمپ کی ایک دیوار پر “لاپتہ نوجوانوں کی تصاویر” کی جگہ “شہید نوجوانوں کی تصاویر” آویزاں کر دی گئیں۔ بلوچ نسل کشی میں تیزی کے ساتھ، ماما قدیر نے نئے پوسٹر چھاپنا کم کر دیا اور تصاویر کے ساتھ محض “رہا” یا “شہید” لکھ دیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر مہرنگ نے کہاہے کہ ان سولہ برسوں کے دوران، ماما قادر نے اپنی ذات کو مکمل طور پر اجتماعی جدوجہد سے جوڑ دیا۔ تاہم، جب بھی وہ کسی صحافی یا سیاسی کارکن سے بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات کرتے اور اپنے شہید بیٹے جلیل ریکی کا ذکر آتا، تو ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے۔ ان کی آنکھوں میں بیک وقت غم اور غصہ جھلکنے لگتا۔ وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ وہ جلیل کے بیٹے کو اپنے ساتھ قبر پر لے جاتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ ریاست نے اس کے والد کو بدترین تشدد کے بعد قتل کیا، اور یہ کہ ریاست ہی اس کے والد کی قاتل ہے، تاکہ ان کے بعد یہ بچہ بلوچ قومی تحریک کا حصہ بن سکے۔
ماما قدیر کو بلوچ قومی تحریک کی ایک مثالی اور ابدی سیاسی شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی قربانی، جرات اور مسلسل جدوجہد بلوچ قومی تحریک سے وابستہ تمام سیاسی کارکنوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
