اس ملک میں انصاف مانگنا جبری لاپتہ افراد کیلے مطالبہ کرنے والوں کو لاپتہ کیاجاتا ہے ۔کامریڈ وسیم سفر

 


کوئٹہ ( نامہ نگار ) اس ملک میں انصاف مانگنا شجرِ
ممنوع بن چکا ہے۔ باپ جب لاپتہ ہو تو بیٹا اگر انصاف مانگے تو وہ خود مجرم ٹھہرتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار سرگرم سماجی کارکن  سوشل میڈیا پر ہروقت آواز اٹھانے والے کامریڈ وسیم سفر نے جاری بیان میں کیا ہے۔
 
انھوں نے کہاہے کہ اس کی واضح مثال پنجگور کے رہائشی ظہیر مولا بخش کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے پر ان کے بیٹے زیشان ظہیر کی اغواء نما جبری گمشدگی اور بعد ازاں مسخ شدہ لاش کی برآمدگی ہے۔
گیارہ سالوں  سے جبری لاپتہ نال درنیلی کے رہائشی ذاکر اسماعیل کی باخفاظت بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے پر ان کے بیٹے عارف ذاکر کو خود جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح زہری کے رہائشی راشد حسین سات سالوں سے لاپتہ ہیں، جن کی رہائی کیلئے آواز بلند کرنے والی بھتیجی ماہزیب کو ہراساں کیا گیا، جبکہ اس جدوجہد کو دبانے کیلئے ان کے والد شفیق بلوچ کو ماورائے عدالت گرفتار کر کے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
یہ ہے اس ملک کا نام نہاد جمہوری نظام، جہاں ریاستی طاقتوں کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر سوال اٹھانے والا مقتول بھی مجرم بنا دیا جاتا ہے۔




طاقت کے زور پر خاموشی تو مسلط کی جا سکتی ہے، مگر یہ خاموشی اگر کسی اور شکل میں بدلی تو یہ ریاست اور اداروں کے لیے ہرگز خوش آئند نہیں ہوگی۔

کامریڈ نے  کہا ہے کہ ریاست آئین کے تحت اپنے شہریوں کی جان، مال، عزت، روزگار، تعلیم، صحت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ذمہ دار ہے، مگر بدقسمتی سے مقتدر قوتیں خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھ رہی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فرعون، نمرود، ہٹلر، ہلاکو خان اور چنگیز خان جیسے جابر بھی ظلم کے بل بوتے پر ہمیشہ حکمرانی نہیں کر سکے۔
بلوچ قوم گزشتہ 78 برسوں سے جبر و بربریت کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے،
حالانکہ تقسیمِ ہند سے قبل برطانوی راج کے دور میں بھی سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
قائداعظم اور علامہ اقبال جیسے رہنما آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے، مگر انہیں ماورائے قانون طریقوں سے خاموش نہیں کرایا گیا۔
جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ غیر قانونی نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگر ان کے پیاروں پر کوئی الزام ہے تو انہیں آئین و قانون کے تحت عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ یہی آئین کی بالادستی ہے۔

آج عدم اعتماد، بیگانگی اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، جو کسی بھی طور نیک شگون نہیں۔ مقتدر قوتیں جو کھیل کھیل رہی ہیں، وہ نہ صرف خطرناک بلکہ تباہ کن بھی ہو سکتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post