کراچی ( نامہ نگار )
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی زون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیاری میں ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ کی غنڈہ گردی عروج پر قائم ہے ، جہاں روزانہ کی بنیاد پر بھتہ خوری ، معمولی مسئلے کی بنیاد پر قتل غارت ، بلوچ عوام کو بلاجواز تنگ کرنا ، نشہ جیسے سماجی برائیوں کو پولیس کے ذریعے فروغ سمیت دیگر جرائم شامل ہیں ۔
انہیں منظم پالیسیوں کے تحت ایک بلوچ نوجوان بابر کو ریاستی پرستی میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے قتل کردیا ۔
بابر بلوچ لیاری کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد، دلدار بلوچ، پیشے کے لحاظ سے ایک الیکٹریشن تھے جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دن رات محنت مزدوری کرتے تھے۔
بدنامِ زمانہ اور ریاستی سرپرستی میں پلنے والے ڈیتھ اسکواڈ سے تعلق رکھنے والے عدنان نامی شخص نے دلدار بلوچ کو بجلی کے کام کے بہانے اپنے پاس بلایا، جہاں اسے زبردستی قید کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے باعث دلدار بلوچ کی حالت نہایت تشویشناک ہو گئی اور وہ دو دن تک سول اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔
ترجمان کا کہنا ہے 11 دسمبر کو بابر بلوچ اپنے والد پر ہونے والے اس ظلم کی وجہ جاننے کے لیے عدنان کے پاس گیا، مگر وہاں مظلوم دلدار بلوچ کے بے گناہ بیٹے بابر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ بابر دو دن تک اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا، لیکن بالآخر 13 دسمبر کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔
بابر بلوچ کے قتل نے ایک ماں کی گود اجاڑ دی اور ایک غریب خاندان سے اس کا واحد سہارا چھین لیا۔ انصاف کے حصول کے لیے بابر کے اہلِ خانہ نے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالنے کی کوشش کی، مگر پولیس نے انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی، جس سے متاثرہ خاندان کے زخموں پر نمک چھڑک دیا گیا۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ لیاری میں اس طرح کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں، جہاں ریاستی سرپرستی یافتہ ڈیتھ اسکواڈز دن دہاڑے بلوچ نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ قاتل اگر گرفتار بھی ہو جائیں تو انصاف کا عمل ادھورا ہی رہتا ہے۔یہ واقعہ محض قانون کی ناکامی نہیں بلکہ انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک لیاری کے غریب اور بے گناہ لوگ اس ظلم کا نشانہ بنتے رہیں گے؟
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی زون اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔
