کوئٹہ (نامہ نگار ) این ڈی پی کے ترجمان نے کہا ہے کہ پارٹی کے اسیر مرکزی رہنماؤں سمیت انسانی حقوق کے موثر آواز ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جبکہ بلوچستان میں ریاستی اقدامات، جبری گمشدگیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بلخصوص خواتین کی حالیہ جبری گمشدگیوں کے تسلسل کی مذمت کی گئی۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا سولہواں مرکزی آرگنائزنگ باڈی اجلاس بمورخہ 27 دسمبر 2025 بمقام شال منعقد ہوا، جس میں پارٹی کی گزشتہ کارکردگی، رپورٹ برائے متفرق کمیٹیاں ، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں ایک منٹ خاموشی کے ساتھ کیا گیا،ماما قدیر بلوچ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جبکہ پارٹی کے اسیر مرکزی رہنماؤں غنی بلوچ اور ثنا ءکھیتران بلوچ کی نشستیں علامتی طور پر خالی رکھی گئیں۔ ان رہنماؤں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے عزم اور جدوجہد کو یاد کیا۔
اجلاس کے ابتدائی ایجنڈے کے تحت سیکریٹری رپورٹ پیش کی گئی، جس میں پارٹی کی گزشتہ کارکردگی مختلف منصوبوں،کامیابیوں اور چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اس کے بعد متفرق کمیٹیوں میڈیا کمیٹی، لیٹریچر کمیٹی اور فنانس کمیٹی نے اپنی رپورٹس پیش کیں، ہر کمیٹی نے اپنی سرگرمیوں، حاصل شدہ نتائج اور آئندہ منصوبوں کی تفصیل بیان کی۔ کمیٹی رپورٹس میں پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کا جامع جائزہ شامل تھا۔اجلاس میں تنقید برائے تعمیر کے اصول کے تحت سیر حاصل تعمیری تنقید کی گئی۔ شرکاء نے کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کے سدباب کے لیے عملی تجاویز بھی پیش کیں۔ اس موقع پر واضح کیا گیا کہ تنقید کا مقصد پارٹی کی کارکردگی کو مضبوط بنانا اور آئندہ حکمت عملی مرتب کرنا ہے، نہ کہ محض نقائص پر تنقید کرنا۔ شفاف تجزیہ اور تعمیری تجاویزات پارٹی کی مجموعی کارکردگی اور مستقبل کے لائحہ عمل کی کامیابی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
مرکزی آرگنائزنگ باڈی کے اجلاس کے تیسرے ایجنڈے میں عالمی اور علاقائی سیاسی صورتحال پر تفصیلی اور سنجیدہ بحث کی گئی۔ اس بحث میں موجودہ عالمی نظام کی نوعیت، طاقت کے مراکز میں آنے والی تبدیلی، اور سامراج کی بدلتی ہوئی شکلوں پر سیر حاصل بحث کیا گیا جس میں مختلف رائے سامنے آئے۔ اجلاس کے شرکاء نے اس امر پر اتفاق کیا کہ عالمی سیاست اس وقت ایک عبوری اور غیر یقینی مرحلے سے گزر رہی ہے، جس کے اثرات براہِ راست خطے کی سیاست، معیشت اور عوامی حقوق پر مرتب ہو رہے ہیں۔ آج کی سامراجیت براہِ راست فوجی قبضے یا نوآبادیاتی تسلط کے بجائے زیادہ تر بالواسطہ، ساختی اور تکنیکی طریقوں سے اپنا اثر قائم کر رہی ہے۔ معاشی انحصار، قرضوں کا جال، انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبے، تجارتی راہداریوں اور سیکیورٹی معاہدوں کے ذریعے ریاستوں کو بتدریج ایسے نظام میں جکڑا جا رہا ہے جہاں وہ بظاہر خودمختار دکھائی دیتی ہیں، مگر ان کی فیصلہ سازی بیرونی مفادات کے تابع ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس عمل میں عالمی مالیاتی ادارے اور ترقی کا بیانیہ ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جبکہ مقامی اشرافیہ اور حکمران طبقات اس نظام کو اندر سے مضبوط بنانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
شرکاء نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد قائم ہونے والا یک قطبی عالمی نظام اب بتدریج کمزور پڑ چکا ہے، تاہم اس کی جگہ کوئی واضح، مستحکم اور متبادل عالمی نظام اب تک تشکیل نہیں پا سکا۔ امریکہ کی بالادستی کو چین کے تیز رفتار معاشی عروج، روس کی عسکری مداخلتوں اور یورپی یونین کے داخلی و معاشی بحرانوں نے سنجیدہ چیلنجز سے دوچار کیا ہے، مگر اس کے باوجود عالمی طاقت کا مرکز مکمل طور پر ایک نئی قوت کو منتقل نہیں ہوا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں دنیا ایک غیر مستحکم کثیر قطبی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں طاقت کے کئی مراکز تو موجود ہیں مگر کوئی ایسی اخلاقی یا سیاسی قیادت سامنے نہیں آ سکی جو عالمی سطح پر قابلِ قبول ہو۔
بحث کے دوران یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ موجودہ عالمی نظام کو محض کثیر قطبی کہنا ناکافی ہے، کیونکہ عملی طاقت کا ایک بڑا حصہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عالمی کارپوریٹ اداروں کے پاس منتقل ہو چکا ہے۔ اس رائے کے حامیوں نے دلیل دی کہ سرمایہ، ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور بیانیہ سازی میں ان اداروں کا کردار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ ریاستی پالیسیوں اور ترجیحات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا ایک نان پولر ورلڈ آرڈر کی شکل اختیار کر رہی ہے۔
اس مؤقف کے مقابلے میں اجلاس میں یہ نکتہ بھی زیرِ بحث آیا کہ اگرچہ ملٹی نیشنل کمپنیاں غیر معمولی معاشی اور تکنیکی طاقت حاصل کر چکی ہیں، تاہم وہ مکمل طور پر ریاستوں سے بالاتر یا آزاد نہیں ہو سکتیں۔ بڑی ریاستیں اب بھی جنگ و امن کے فیصلے، پابندیاں عائد کرنے، قانون سازی اور سفارت کاری جیسے بنیادی اختیارات اپنے پاس رکھتی ہیں۔ کئی صورتوں میں کارپوریٹ طاقت درحقیقت ریاستی مفادات کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آتی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست اور سرمایہ کے درمیان تعلق حاکم و محکوم کے بجائے باہمی انحصار کی صورت اختیار کر چکا ہے، جہاں دونوں ایک دوسرے کے بغیر مکمل طور پر مؤثر نہیں رہ سکتے۔
تفصیلی بحث و تمحیص کے بعد اخذ کیا گیا کہ موجودہ عالمی صورتحال کو نہ خالصتاً یک قطبی، نہ مکمل کثیر قطبی، اور نہ ہی مکمل نان پولر نظام کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت دنیا ایک مرکب یا ہائبرڈ عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں ریاستیں عسکری، قانونی اور سفارتی طاقت کی حامل ہیں، جبکہ کارپوریٹ ادارے معاشی، تکنیکی اور بیانیاتی قوت کے ذریعے عالمی سیاست کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں مستقبل کی سامراجیت زیادہ تر ریاستوں کے بجائے خطوں، قدرتی وسائل، توانائی، معدنیات، سمندری راستوں، پانی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر مرکوز ہوتی جائے گی، جہاں ترقی کو ایک بیانیے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جغرافیہ اور وسائل پر طویل مدتی کنٹرول قائم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کو عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کو سازشی نظریات کے بجائے سنجیدہ ساختی اور سیاسی تجزیے کی بنیاد پر سمجھنا ہوگا۔ پارٹی کو اپنے سیاسی مؤقف، تنظیمی حکمتِ عملی اور عوامی بیانیے کو جدید سامراج، ریاستی طاقت اور کارپوریٹ اثر و رسوخ کے تناظر میں واضح اور مربوط بنانا ہوگا، تاکہ خطے کی سیاست، وسائل اور عوامی حقوق کا مؤثر دفاع کیا جا سکے۔ شرکاء نے واضح کیا کہ عالمی سیاسی تبدیلیوں کے اثرات سے بلوچستان یا بلوچ قومی تحریک کسی طور محفوظ نہیں رہ سکتی۔ سی پیک ، سیندک اور ریکوڈک جیسےمنصوبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں اور عالمی طاقتوں کی شمولیت، بلوچستان کی گرم پانیوں تک رسائی، بحرِ بلوچ، اور پسنی سمیت دیگر ساحلی علاقوں کی اسٹریٹجک اہمیت خطے کی سیاست اور بلوچ قومی تحریک پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ عالمی سرمایہ کاری اور سیکیورٹی منصوبوں میں ریاست اور بیرونی طاقتیں مشترکہ اثر ڈالتی ہیں، جس سے بلوچستان میں وسائل، جغرافیہ، اور عوامی حقوق پر کنٹرول برقرار رکھنے کی پالیسیاں بھی مرتب ہو رہی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کے کارکنوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل مسئلہ ان منصوبوں سے منسلک مبینہ ترقی کا نہیں، بلکہ بلوچ عوام کے اختیارات اور فیصلہ سازی میں شمولیت کا ہے۔ ترقی کا بیانیہ درحقیقت بلوچستان کی سرزمین، وسائل اور جغرافیائی اہمیت پر کنٹرول قائم کرنے کا ذریعہ ہے، جبکہ بلوچ قوم کو اپنے وسائل پر حقیقی اختیار نہیں دیا جا رہا۔یہ صورتحال بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک سنجیدہ سیاسی چیلنج ہے، جس کا مقابلہ واضح سیاسی موقف، منظم جدوجہد، اور عوامی شعور کے ذریعے ممکن ہے۔ ریاست کی جانب سے ان منصوبوں کو عوام سے خفیہ رکھنے، ریکوڈک جیسے معاملات میں غیر شفاف معاہدے کرنے، اور عوامی رائے کو فیصلہ سازی سے دور رکھنے کا رویہ بھی نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جس کے خلاف اٹھنے والے عوامی ردِعمل کو دبانے کے لیے سخت ریاستی اقدامات معمول بن چکے ہیں۔ ان میں عوامی احتجاجات پر پابندیاں، جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے، مسخ شدہ لاشیں، ڈیتھ اسکواڈز کا استعمال، فورتھ شیڈول، تری ایم پی او اور ای سی ایل میں نام ڈالنا، سیاسی کارکنوں کو جیل میں رکھنا، اور خواتین کی گرفتاریاں اور جبری طور پرگمشدگیاں شامل ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان لاپتہ ہیں، حالیہ واقعات سے اندازاہ لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈز کو بے لگام چھوڈا دیا گیا ہے کہ کہیں سے بھی کسی کو اغوا کر کے قتل کر سکیں، تھری ایم او اور کے قانون کا سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال ہونے کا عملی مظاہرہ بی وائے سی رہنماؤں کی گرفتاریوں کی صورت میں دیکھا جا چکا ہے جبکہ این ڈی پی آرگنائزر سمیت دیگر کئی بلوچ سیاسی کارکنان اور رہنماؤن کا نام بھی اس میں شامل ہیں لیکن واضح کرتے ہیں کہ ایسے ہتکنڈے بلوچی سیاسی کارکنان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے مزید مستحکم کریں گے۔
بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیاں اور ماروائے آئین گرفتاریاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور یہ عمل نہ صرف مقامی معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے خلاف ہے بلکہ آئین و قانون کی کھلی پامالی کا بھی مظہر ہے۔ ریاستی اداروں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خواتین اور دیگر کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام ہیں، اور آئین کے بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے جبر اور طاقت کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔یہ عمل خواتین کی شخصی آزادی، اجتماعی حقوق، اور بلوچ عوام کی سیاسی و سماجی شمولیت کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔شرکاء نے اس صورتحال کو ریاستی جبر کی انتہا قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ۔ خواتین کی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ایک نئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ بلوچستان میں موجودہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، خصوصاً جبری گمشدگیاں اور خواتین کی ماروائے آئین گرفتاریاں برسوں سے جاری ریاست جبر اور استعماری پالیسیوں کا تسلسل ہیں۔ ان پر توجہ نہ دینا بلوچ قومی تحریک اور مقامی عوام کے لیے سنگین خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔
اجلاس میں پارٹی کے تنظیمی امور پر تفصیلی اور نتیجہ خیز بحث ہوئی، جس میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور شفاف فیصلہ سازی کے طریقوں کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر واضح کیا گیا کہ مرکزی جمہوریت اور جمہوری تقاضے پارٹی کی کامیابی کے لیے لازمی ہیں، اور ہر رکن کو اپنے فیصلوں اور رائے کے اظہار میں آزاد ہونا چاہیے تاکہ پارٹی کے اندر اعتماد اور شفافیت قائم رہے کسمپرسی کے ماحول میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے، جس کے لیے پارٹی کو عملی حکمت عملی اور متحد موقف اپنانا ہوگا۔ ریاستی دباؤ اور جبر کے باوجود اصول اور موقف برقرار رکھنا ضروری ہے، خاص طور پر جبری گمشدہ ساتھیوں کے لیے آواز بلند کرنا پارٹی کی اولین ذمہ داری ہے۔ دیگر سیاسی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ مشترکہ پالیسی اور تعاون پیدا کر کے جدوجہد کو مؤثر بنانا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ طاقت کی موجودگی کے باوجود، سیاسی جدوجہد کی اہمیت کم نہیں ہوتی، اور عوامی شعور پیدا کرنا، موقف واضح کرنا، اور مقامی حقوق کے تحفظ کے لیے یہ بنیادی ذریعہ ہے۔
اجلاس میں تنظیمی ڈھانچہ اور کیڈرسازی پر بھی مفصل گفتگو ہوئی۔ پارٹی کے لیے ہر سطح پر مضبوط اور تربیت یافتہ کیڈرز ضروری ہیں، جو نہ صرف بیانیہ عوام تک مؤثر انداز میں پہنچائیں بلکہ فیصلہ سازی اور عملی اقدامات میں بھی حصہ لیں۔ اس کے علاوہ، پارٹی لیٹریچر، بیانیہ اور پروپگنڈے کے حوالے سے بھی غور کیا گیا، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ بیانیہ ہم آہنگ اور عوامی مسائل کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ موقف واضح ہو کیونکہ مضبوط تنظیمی ڈھانچہ، تربیت یافتہ کیڈرز، اور موثر بیانیہ پارٹی کی نظریاتی مضبوطی، عوامی اثر پذیری اور سیاسی کامیابی کے بنیادی ستون ہیں۔ یہ تمام عناصر ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور کسی ایک پہلو کو نظر انداز کیے بغیر مجموعی طور پر پارٹی کی فعالیت اور عوامی حمایت کو فروغ دینا ضروری ہے۔
آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور تنظیمی امور پر سیر حاصل بحث کے بعد متعدد اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں مرکزی ذمہ داروں اور مختلف فعال و غیر فعال زونز کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور اس کے مطابق عملی اقدامات طے کیے گئے۔ اس موقع پر ، میڈیا تشہیر، لیٹریچر بلخصوص پارٹی کے مرکزی آرگن، اور کارکنوں کی تربیت کے حوالے سے بھی مؤثر فیصلے کیے گئے، تاکہ پارٹی کی فعالیت، نظریاتی مضبوطی میں اضافہ ہو جس کے بعد اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔
